Skip to main content

مضامین


حالات کیا ہیں؟ کیسے بدلیں گے؟
شاہنواز فاروقی
جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس صورت حال نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کو سوالیہ نشان بنادیا۔ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا وجود نہ رہا۔ معاشرہ دہشت گردی کی آگ میں جھلسنے لگا۔ پورا ملک امریکیوں کی چراگاہ بن گیا۔ امریکی غلامی نے ہمیں دس برس میں 50 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اس صورتِ حال نے جنرل پرویز کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ حکومت تبدیل ہوئی مگر پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک غربت اور مہنگائی کے طوفانوں میں گھر گیا ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی سسک رہی ہے۔ امریکہ کی مداخلت بڑھتے بڑھتے تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور قوم پر نیا ٹیکس مسلط کرنے تک آگئی ہے۔ حکمرانوں کی بدعنوانی اور نااہلی کا عذاب اس کے سوا ہے۔ ملک میں قومی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا مگر حکومت کہیں نہیں تھی۔ اس منظرنامے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ ناکام نظر آرہی ہے۔ چار دفعہ اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اقتدار میں شامل دوسری جماعتوں کی ناکامیاں اور بڑھی ہوئی ہیں۔ ملک کی بقا اور سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری یہ حالت کیوں ہے اور حالات کیسے بدلیں گے؟ تجزیہ کیا جائے تو ملک پر 60 سال سے مسلط حکمران طبقے میں تین بڑے عیب ہیں۔
یہ طبقہ نااہل ہے، بدعنوان ہے اور امریکہ کا غلام ہے۔ چنانچہ ان حالات کو بدلنے کی ایک ہی صورت ہے۔ ملک کو ایماندار، اہل، امریکہ کے اثر سے آزاد اور قوم کی خدمت کرنے والی قیادت فراہم کی جائے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کا خمیر قرآن و سنت کی بالادستی، تقوے، علم، مزاحمت اور خدمت سے اٹھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی قیادت کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، جماعت اسلامی پورے ملک میں متحرک نظر آتی ہے اور وہ اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ چنانچہ ملک میں جماعت اسلامی ہی انقلاب کی علامت ہے۔ تبدیلی کی علامت ہے۔ آئیے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیجیے۔ اس جماعت کا ساتھ جو ایمان داری، اہلیت اور خدمت ہی کی نہیں تمام تعصبات سے بلند ہونے کی بھی علامت ہے۔ یاد رکھیے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
...........................................


سوشل ازم کیا ہے؟
''فاروق دلاور''
تعارف اور تاریخی مادیت پاکستان اس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے وہ دراصل عالمی سرمایہ داری نظام کے استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی ایک گھمبیر شکل ہے موجودہ بحران کا خاتمہ اب اصلاحات نہیں بلکہ انقلابات سے ممکن ہے۔پاکستان جیسے ملک میں رہنے والے محنت کشوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نظریاتی طور پر مسلح کریں تاکہ وہ آنے والے حالات کا درست تجزیہ کر کے درست حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ نظریات کے بغیر سیاسی کارکن کی مثال اس کشتی کی طرح ہے جو بحرے بیکاراہ میں موجوں کے جھونکے کے ساتھ اپنا رخ تبدیل کرتی ہے۔ ایسے کارکن کسی بھی بڑی تحریک میں پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ڈگمگاتے رہتے ہیں۔ لیبر پارٹی پاکستان اور اس کی ہمدرد تنظیموں کے کارکنان کی نظریاتی تربیت کے بغیر پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی کا خواب پورا نہیں کیا جاسکتا۔ مزدور جدوجہد اسی مقصد کے حصول کیلئے نظریاتی تعلیمی سلسلہ شروع کر رہا ہے۔ میدانِ عمل میں جدوجہد کرنے والے مزدور، کسان، طالب علم، خواتین اور نوجوان اس نظریاتی تعلیمی سلسلے سے فائدہ اٹھا کر ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں جسے کوئی نہ توڑ سکے۔تمام متحرک ساتھی اس نظریاتی بحث میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے سوشلزم کا نام نہ سنا ہو لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ حقیقی سوشلسٹ نظریات سے تو واقف نہیں ہوتے لیکن سوشلزم پر گھناونے الزامات ضرور لگاتے ہیں۔ کوئی اسے سابقہ سوویت یونین کا حوالہ دے کر آمرانہ جابرانہ نظام حکومت بنا کر پیش کرتا ہے جس میں عوام کو کسی قسم کی سیاسی و انفرادی آزادی حاصل نہیں ہوتی اور کوئی اسے بے مذہب لوگوں کا مذہب بنا کر پیش کرتا ہے حالانکہ حقیقی سوشلزم کا ان ساری باتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سوشلزم سے مراود ایک ایسا نظام ہے جس میں سب برابر ہوتے اور کوئی امیر یا غریب نہیں ہوتا۔ یہ بالکل دو متضاد رائے ہیں۔ آئیے ذرا دیکھیں سوشلزم کیا ہے؟ سوشلزم ایک سماجی سائنس، اقتصادی نظام اور فلسفہ حیات کا نام ہے۔ سوشلزم ایک ایسی اقتصادی سائنس ہے جو پہلے تو یہ بتاتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو سرمایہ دار طبقہ ہے وہ مزدور طبقہ کا استحصال کس طرح کرتا ہے یا یوں کہئے سوشلزم یہ بات سمجھاتا ہے کہ چند لوگ امیر سے امیر تر اور اکثریت غریب سے غریب تر کیوں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ اقتصادی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر اکثریت یعنی محنت کش اقتدار اور ذرائع پیداوار یعنی صنعت، زراعت، معدنی ذخائر، قدرتی دولت پر قبضہ کر کے پورے معاشرے کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کے تحت صنعتی اور زرعی پیداوار حاصل کریں تو نہ صرف معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق یعنی امیرغریب کا فرق ختم ہو جائے گا بلکہ غربت بھی ختم ہو گی۔ عوام کی ضرورتیں پوری ہوں گی اور ان کی مانگ یعنی ان کے مطالبات کا خاتمہ ہو گا جن میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت کی سہولتیں، ٹرانسپورٹ سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشلزم مانگ کا خاتمے کرنے والی اقتصادی سائنس کا نام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ اقتصادی نظام یہ سب کچھ کیوں نہیں کر پاتا اور سوشلسٹ اقتصادی نظام یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب کیسے ہو جاتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ موجودہ نظام جسے ہم سرمایہ داری نظام کہتے ہیں اس نظام میں ذرائع پیداوار چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ سوشلسٹ ان سرمایہ داروں کو بورژوا طبقہ یا بورژوازی کہتے ہیں۔یہ سرمایہ دار اپنی صنعتوں میں جو مال تیار کرتے ہیں اس مال کو وہ بیچ کر صرف اور صرف منافع کمانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کی ضرورتیں پوری کرنا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ہم لاہور شیخورہ روڈ پر واقع گلاس بنانے والی ایک فیکٹری کے حوالے سے دے سکتے ہیں۔ ٹویوناسک نامی ایک فیکٹری میں ایک عرصہ تک ہوتا تھا کہ جب جگ اور گلاس جب تیار ہو جاوتے تو انہیں دوبارہ بھٹی میں ڈال دیا جاتا کیونکہ اس فیکٹری کے مالک نہیں چاہتے تھے کہ یہ گلاس اور جگ مارکیٹ میں اتنی بڑی تعداد میں جائیں کیونکہ اس طرح قیمت کم ہوجاتی ہے اور ان کے منافع میں کمی آجاتی ہے۔ حالانکہ مارکیٹ میں جگ اور گلاس کی مانگ موجود تھی۔ اب ذرا سوچیں اگر یہی فیکٹری مزدوروں کے کنٹرول میں ہوتی اور ملک میں سوشلسٹ نظام ہوتا تو اس فیکٹری کو چلانے والے مزدور بیٹھ کر پہلے یہ دیکھتے کہ مارکیٹ میں کتنے جگ اور گلاس چاہیں پھر وہ اپنی فیکٹری کی پیداوار کی صلاحیت دیکھتے اور وہ عوام کی ضرورت کے مطابق وہ جگ اور گلاس بنا کر مارکیٹ میں بھیجتے اور یوں وہ نا صرف عوام کی مانگ کا خاتمہ ہوتا بلکہ فیکٹری کے مزدور (جنہیں سوشلسٹ پرولتاریہ کہتے ہیں) کی محنت کا پھل بھی انہیں ملتا۔اس مثال سے ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری یعنی موجودہ نظام میں ذرائع پیداوار چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان ذرائع پیداوار سے کتنی پیداوار حاصل کرنی ہے اور ان کے پیش نظر پیداوار کا مقصد صرف اور صرف منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ نظام منافع کا اور اقلیت (یعنی سرماہ دارانہ اقلیت) کانظام ہے جبکہ سوشلسٹ نظام معیشت میں ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں۔ ان ذرائع پیداوار سے کتنی پیداوار حاصل کرنی ہے اس کا فیصلہ مزدوروں کی منتخب کمیٹی کرتی ہے جسے سوشلسٹ سوویت کہتے ہیں۔ سوویت جمہوری انداز میں یہ منصوبہ بندی کرتی ہے کہ معاشرے میں کس چیز کی کتنی مانگ ہے اور اسے کس طرح پورا کرنا ہے۔ اس نظام میں ذرائع پیداوار سے حاصل ہونے والی پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ عوام کی ضرورتوں کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے چونکہ اس نظام میں اکثریت (یعنی محنت کش طبقہ) ذرایع پیداوار کو پرولتاریہ کی قیادت میں اپنے کنٹرول میں لے کر ضرورتوں اور مانگ کا خاتمہ منافع کے لیے نہیں کرتے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشلسٹ نظام اکثریت کا نظام ہے جس میں پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ مانگ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ مگر اصل بات تو یہ ہے کہ سوشلسٹ اقتصادی نظام جس میں ہم نے ابھی دیکھا کہ اتنی زیادہ خوبیاں ہیں۔ کیا وہ لوگو بھی کیا جاسکتا ہے یہ ہے وہ اہم سوال جو فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ سوشلزم اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ہم یعنی محنت کش، مظلوم اور محکوم مزدور طبقہ یعنی پرولتاریہ کی قیادت میں یہ کام کر سکتے ہیں۔ سوشلزم ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح سائنس کی دنیا میں سائنس کے اپنے اصول ہوتے ہیں اس طرح سماج کے اندر بھی سماج کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ سائنس میں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسدان مادی دنیا کے فارمولے اور قوانین دریافت کرنے کے بعد جب ان پر عملدرآمد کرتے ہیں تو انسان کے لیے آسانیاں اور آسائشیں پیدا کر دیتے۔ اسی طرح سوشلسٹ سماج کے قوانین دریافت کر کے اور ان پر عملدرآمد کر کے سماج کو بدل سکتے ہیں اور اس سماج میں انسان کے لیے آسانیاں اور آسائشیں پیدا کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کو ہم سماج کی سائنس اور سوشلسٹوں کو سماجی سائنسدان کہتے ہیں۔ ان سماجی سائنس کو باقاعدہ سائنس بنانے والا پہلا شخص کارل مارکس تھا۔ کارل مارکس نے اپنے دوست اینگلز کی مدد سے سوشلسٹ اقتصادی سائنس اور سماج کو بدلنے کے لیے قوانین کو سب سے پہلے پچھلی صدی کے درمیان میں پیش کیا اور پھر اس صدی کی دوسری دہائی میں روس کے اندر 1917میں وہاں مارکسٹ پارٹی نے (جو اس وقت RSDLP کے نام سے کام کرتی تھی نے لینن کی قیادت میں مزدوروں اور کسانوںکی حمایت سے وہاں پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور دنیا میں پہلی مزدور سوشلسٹ ریاست کی بنیاد رکھ دی اور یہ ثابت کیا کہ مارکس اور اینگلز نے جو سائنسی نظریات پیش کئے وہ خیالی نہیں بلکہ قابل عمل باتیںہیں۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ مارکس سے پہلے بھی ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں، جنہوں نے ایک نئے نظام کی ضرورت پر زدور دیا اور اس کے خدوخال پیش کیے۔ یہ لوگ بھی سوشلسٹ کہلاتے تھے۔ ان میں بابیوف اور رابرٹ اوون اہم نام ہیں۔ مگر مارکس سے پہلے جتنے بھی سوشلسٹ آئے وہ خیالی سوشلسٹ تھے جبکہ مارکس سائنسی سوشلسٹ تھا۔ ہم جس سوشلزم کا اب تک ذکر کررہے ہیں وہ درحقیقت سائنسی سوشلزم ہے۔ خیالی اور سائنسی سوشلزم میں فرق یہ ہے کہ سائنسی سوشلزم کی بنیاد حقائق پر ہے جسے کوئی بھی دیکھ اور پرکھ سکتا ہے اور جنہیں ثابت کیا جاسکتا ہے جبکہ خیالی سوشلسٹ اپنے ذہن اور دماغ سے باہر نہیں نکلتے اور اوپری سطح سے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل یہ تھوڑی سی طویل بحث ہے ہم مارکسی سوشلزم کو سائنسی سوشلزم کیوں کہتے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تین ستونوںکا مطالعہ کریں جن کے سارے سوشلزم یعنی مارکسزم کی عمارت کھڑی ہے اور وہ تین ستون ہیں۔ (1) تاریخ مادیت (2) جدلیاتی مادیت (3) مارکسی معیشت تاریخی مادیت موجودہ قسط میں ہم سوشلزم کے پہلے ستون یعنی تاریخی مادیت کے متعلق بات کریں گے۔آئیے دیکھتے ہیں تاریخی مادیت ہمیں کیا بتاتی ہے۔ جنگل اور غاروں میں زندگی گزارنے سے لے کر موجودہ کمپیوٹر کے عہد تک انسان نے تاریخ کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ غاروں کی زندگی سے موجودہ عہد تک انسان نے ترقی کی ہے بے شمار منزلیں طے کی ہیں، تاریخ کے اس ارتقاکے بارے میں ہمیں دو نظریات ملتے ہیں، ایک وہ نظریہ جو مارکس نے دیا جسے مادی تاریخ کہتے ہیں اور ایک وہ نظریہ جو سرمایہ داروں نے ہمیں دیا اور چونکہ موجودہ سماج سرمایہ دارانہ سماج ہے لہذا ہمیں عام طور پر مادی تاریخ سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور تاریخ کو سرمایہ داروں کے نقطہ نظر سے پڑھایا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تاریخ کا دھارا چند بڑے لیڈر ہی بدل سکتے ہیں۔ یہ عام بندے کے بس کی بات نہیں جبکہ مارکس نے یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ تاریخ بدلنے کا فریضہ طبقہ انجام دیتا ہے۔ اس کی سچائی کو ہم پرکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاریخ کا ارتقاء تاریخ کے لفظی معنی تو وقت کی نشان دہی کے ہیں لیکن اصطلاحا اس کا مطلب وقت بتا کر متعین کرنا ہے۔ اس لحاظ سے ماضی تاریخ کا ہے اور تاریخ مختلف ادوار میں ہونے والے واقعات کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی عمر تقریبا 5ارب اور دھرتی ماتا کے سینے پر نسل انسانی کا ظہور ماہ سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے آبا اجداد ارتقائی عمل کے ذریعے موجودہ شکل و صورت میں بنے، بندروں اور لنگوروںکی طرح درختوں پر جھولنے سے لے کر کمپیوٹر اور روبوٹ کے موجودہ دور تک ہم نے فطرت کی تسخیر میں ان گنت منزلیں طے کی ہیں۔ وقت کی ڈوری سے بندھی ہوئی یہ لمحہ بہ لمحہ تبدیلی ترقی ارتقاکہلاتی ہے چنانچہ جب ہم تاریخ کے ارتقاکا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر وقت کی وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی وہ تمام تصویریں ہوتی ہیں جسے فطرت کے رنگوں سے انسانی دست محنت نے مختلف ادوار میں تخلیق کیا۔ انسانی معاشرے کے مذکورہ بالا ارتقاکی تہہ میں مادی تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ اسی لیے تاریخی ارتقاکو تاریخی مادیت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تاریخ جو ہمیں پڑھائی جاتی ہے سکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کا ناقدانہ جائزہ لیں تو ان میں بادشاہوں، جرنیلوں، منصب داروں، امرائ، وابستگان، دربار مصاحین اور حکمران کی ولادت، وفات، ثقافت، جنگوں، فتحوں، شکستوں اور پھر سیلاب، زلزلہ، طوفان وبائی امراض اور عمارت سازی کے واقعات کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ حادثات و واقعات کا لامتناہی سلسلہ ہے جس کی نہ تو کوئی سائنسی توجیہہ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاریخ جنگ و جدل کے پہلو کو نمایاں کر کے پیش کرتی ہے جس نے جتنا زیادہ انسانی خون بہایا وہ اتنا ہی بڑا سورما ٹھہرا۔ یہ حکمران طبقات کی ہوس ملک گیری کے لیے لڑی جانے والی جنگوں کو قوم اور ملک کی جنگیں قرار دیتے ہیں اور یوں قوموں اور ملکوں کے درمیان نفرتوں، عداوتوں، دشمنیوں اور تعصبات کو زندہ رکھتے ہیں۔ آج بھی تاریخ کے صفحات میں انگلستان اور فرانس کی جنگیں، ترکوں اور بلقانی ریاستوں کی جنگیں، صلیبی جنگیں، یورپ اور نوآبادیاتی ممالک کی جنگیں محفوظ ہیں۔ تاریخ کا یہ سرمایہ مختلف ملکوں میں بسنے والے غریب عوام کو خواہ مخواہ ایک دوسرے کا دشمن بنارکھتا ہے۔ ہر ملک اور قوم کے مورخوں نے تاریخ لکھتے وقت اپنی قوم ملک کی شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ تاریخ کا یہ پہلو عوام کو شاندار ماضی پر فخر کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر بعض لوگ احیاکی تحریکیں شروع کر دیتے ہیں۔یہ لوگ حال کی جنگ کو ماضی کے زنگ آلودہ ہتھیاروں سے لڑنا چاہتے ہیں اور تاریخ ہی وہ میوزیم ہے جہاں زنگ آلودہ ہتھیاروں اور فرسودہ نظریات کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ روایتی تاریخ سے حکمران طبقات ایک اور اہم مقصد بھی حاصل کرتے ہیں چونکہ اس تاریخ میں اکثریت یعنی محنت کش عوام کا کہیں ذکر نہیں ہوتا اس لیے عوام اپنی قوت و طاقت کے احساس سے ناآشنا رہتے ہیں ان میں خود اعتمادی نہیں آئی۔ قوت و طاقت کے احساس سے عاری عوام حکمران طبقے کے لیے چیلنج نہیں بن سکتے اور یہی بات حکمران طبقہ چاہتا ہے۔ یہ تاریخ افراد کے گرد گھومتی ہے لیکن بڑی ہی چالاکی اور چابکدستی سے افراد کی تاریخ کو پورے معاشرے کی تاریخ بنادیا جاتا ہے۔ مسلمان حکمران خاندانوں کی تاریخ کو مسلم معاشرے کی تاریخ کہہ کر پڑھایا جاتا ہے حالانکہ جب بادشاہ ظل سبحانی کی سواری آتی تھی تو اس معاشرے کے کئی افراد صرف اس لیے قدموں تلے کچل کر مر جایا کرتے تھے کہ وہ ان پیسوں کو حاصل کرنا چاہتے تھے جو بادشاہ رعایا پر نچھاور کیا کرتے تھے۔ یہ تاریخ تاج محل کو شاہجہاں کا کارنامہ بتاتی ہے۔ حالانکہ اس نے تاج محل کی تعمیر میں ایک اینٹ بھی نہیں لگائی۔ ان لاکھوں دستکاروں، مزدوروں اور کاریگروں پر تاریخ کے دروازے بند ہیں جنہوں نے اپنی ہنر مندی اور مہارت سے تاج محل، اہرام، مصر اور دوسرے عجائبات علم کو تخلیق کیا۔ اس تاریخ میں معاشرے کی اکثریت محض تاوبع محمل بے ہودہ اور اقلیت کی آلہ کار نظر آتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یک طرفہ اور گمراہ کن بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ واقعی کوڑے کا ایسا ڈھیر ہے جس میں کوئی کارآمد چیز نہیں ہے یا یہ ممکن ہے کہ حالات و واقعات کے اس انبار کی چھان بین کر کے ان بنیادی اصولوں کا پتہ لیا جائے جو ان حالات و واقعات کو عمل میں لانے کا باعث بنے۔ تاریخ کی سائنس انسانی سماج کا ارتقاجن اصولوں اور قوانین کے تحت ہوتا ہے انہیں تاریخ کی سائنس کہتے ہیں۔ تاریخی مادیت بھی انہیں اصولوں اور قوانین کے مطالعے کا نام ہے۔ ان قوانین کی دریافت انسانی تاریخ کے گہرے مطالعے اور تحقیق کے بعد ممکن ہو سکی۔ طبیعات، حیاتیات، کیمیا اور دوسری سائنسوں کے قوانین کی طرح انسانی تاریخ کے قوانین بھی حقیقی ہیں۔ اہم تاریخی تبدیلیاں ہر دور اور ہر جگہ ان قوانین کی پابند رہی ہیں۔ یہ اصول و قوانین نوع انسانی کا انمول سرمایہ ہیں۔ انہیں انسانی سماج کی بہتری کے لیے اسی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے جس طرح دوسری سائنسوں کے قوانین نت نئی ایجادات کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے ہم نہ صرف یہ بتاسکتے ہیں کہ تاریخ کے مخصوص دور میں مخصوص قسم کے واقعات ہی کیوں رونما ہوئے بلکہ یہ بھی کہ آنے والے کل میں کیا ہو گا اور کس طرح ناپسندیدہ اور آج واقعات کو قوع پذیر پر ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ طبقے اور طبقاتی کشمکش ایسے افراد جو ایک ہی طریقے سے روزی کماتے ہیں۔ ایک ہی طبقے کے افراد کہلاتے ہیں مثلا سرمایہ داری نظام میں تمام سرمایہ داروں کا روزی کمانے کا طریقہ یکساں ہے۔ وہ ذرائع پیداوار کے مالک ہوتے ہیں یعنی فیکٹریاں، بینک اور کمپنیاں وغیرہ ان کے اپنے قبضے میں ہوتی ہیں جہاں مزدور، ملازم کام کرتے ہیں اور مالک سے طے شدہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ تمام سرمایہ داروں کا طبقہ ایک ہی ہوا کیونکہ ذرائع پیداوار ملکیت کی وجہ سے ان کا طریقہ یکساں ہے اسی طرح تمام مزدور ملازم وغیرہ ایک ہی طبقے کے افراد ہوتے ہیں کیونکہ سبھی افراد اپنی محنت بیچ کر روزی کماتے ہیں اول الذکر کہ بورژوا طبقہ جبکہ دوسرے کو پرولتاری طبقہ یا پرولتاریہ کہا جاتا ہے۔ تمام سرمایہ داروں کا طبقاتی مفاد ایک ہی ہوتا ہے کیونکہ سبھی اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار ملے۔ کم سے کم مزدور ملازم رکھے جائیں اور یہ زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ انہیں کم سے کم تنخوادہ دی جائے تاکہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ ہو۔ دوسری طرف پرولتاریہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ تنخواہ میں اضافہ ہو، بونس زیادہ ملے چھٹیوں کی تعداد بڑھے، اوقات کار میں کمی ہو۔ تعلیم، صحت اور رہائش وغیرہ کی سہولتیں ہوں۔ غور کریں تو یہ تمام خواہشات سرمایہ دار کی خواہشات کے برعکس ہیں۔ اسے ہم یوں کہتے ہیں کہ دونوں طبقات کا مفاد الگ الگ ہے۔ طبقاتی مفادات میں تضاد کی بدولت ان کے درمیان طبقاتی کشمکش جنم لیتی ہے جو اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک خود طبقے ختم نہ ہو جائیں۔ معاشرے میں طبقاتی کشمکش کا اظہار ہر سطح پر ہوتا رہتا ہے جو پھیل کر بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ طبقوں کے درمیان یہ تنا اور کھینچا تانی تاریخ کے صفحات پر بغاوتوں، انقلاب اور آزادی کی تحریکوں کے نام سے درج ہوتا ہے۔ طبقاتی کشمکش کا یہ اصول قدیم کمیونسٹ سماج کو چھوڑ کر انسانی تاریخ کے ہر دور میں کارفرما نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری نظام سے پہلے جاگیرداری نظام میں یہ کشمکش جاگیردار اور مزارعے کے درمیان تھی۔ دور غلامی میں یہ تضاد آقا اور غلام کے مابین تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ اس تضاد نے ان گنت جنگوں، بغاوتوں اور انقلابات کو جنم دیا ہے چنانچہ ہر تاریخی واقعات کو اس کشمکش کی تفصیل میں جائے بغیر حالات و واقعات کے گورکھ دھندے کو سلجھایا نہیں جاسکتا۔ سماج کی مادی زندگی اور تاریخ ہم نے دیکھا کہ طبقاتی کشمکش روپ بدل بدل کر تاریخ کا حصہ بنتی رہی، سوال یہ ہے کہ آقا اور غلام کس طرح جاگیردار اور مزارعے بن گئے یا پھر جاگیردار اور مزارعے کیسے سرمایہ دار اور مزدور کی شکل میں آگئے۔ اس بنیادی سوال کا جواب ہمیں سماج کی مادی زندگی کے تجزئیے سے حاصل ہوتا ہے۔ روایتی مورخ اس ضمن میں فطرت اور آبادی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو آیئے سب سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ان کے دعوی میں کتنا وزن ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سماج کی مادی زندگی میں سب سے پہلا نمبر فطرت کا ہے۔ وہ جغرافیائی ماحول جس میں سماج نشوونما پارہا ہے سماج کی تشکیل اور ہیئت ترکیبی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ جغرافیائی ماحول کی تبدیلی سماج کی اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جغرافیائی تبدیلیاں کا عمل بہت سست روی سے ہوتا جبکہ تاریخ کا علم بتاتا ہے کہ یورپ میں صرف 3ہزار سال کے عرصے میں 3مختلف سماجی نظام کامیابی سے منسوخ کر دیئے گئے۔ جغرافیائی ماحول میں تو قابل ذکر تبدیلیوں کے لیے لاکھوں سال کا عرصہ درکار ہے۔ سماج کی مادی زندگی کا دوسرا اہم پہلو سماج کی مجموعی آبادی ہے۔ آبادی کا کم یا زیادہ ہونا مادی حالات کے تعین میں کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ چیز بھی مشاہدے کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی کیونکہ اگر گنجان آبادی ترقی کا عنصر بن سکتی ہے تو چین، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ممالک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے۔ تو آخر وہ کون سی قوت ہے جو سماج کو ایک نظام میں دھکیلنے کا سبب بنتی ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی خواہش زندہ رہنا ہے اس بنیادی جبلی تقاضے کی تکمیل کے لیے اسے مادی وسائل مثلا غذا، کپڑا، جوتا، مکان اور ایندھن وغیرہ کی ضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں فطرت میں تیار شدہ حالت میں نہیں ملتیں بلکہ فطرت سے خام مال لے کر انسان اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ساری چیزیں تیار کرنے کے لیے انسانوں کے پاس آلات پیداوار اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ عوام جو اپنی محنت، تجربے اور مہارت سے آلات پیداوار کو استعمال کر کے مادی وسائل پیدا کرتے ہیں، مجموعی طور پر سماج کی پیداواری قوتیں کہلاتے ہیں۔ پیداواری قوتیں ایک طرف تو انسان اور فطرت کے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں اور دوسری طرف پیداواری عمل میں انسانوں کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مارکس کا قول پیداواری عمل کے دوران انسان نہ صرف فطرت پر بلکہ ایک دوسرے پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ وہ امداد باہمی اور مشاغل کے باہمی تبادلے سے اشیاپیدا کرتے ہیں۔ دولت پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مخصوص تعلقات اور روابط قائم کرتے ہیں اپنے سماجی تعلقات اور روابط کے اندر فطرت پر ان کا عمل ہوتا ہے۔ یعنی دولت پیدا ہوتی ہے۔ ہم اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کر رہے تھے کہ آخر وہ کون سی قوت ہے جو سماج کو ایک نظام سے دوسرے میں دھکیلنے کا سبب بنتی ہے۔ اس ضمن میں ہم نے سماج کے مادی حالات کا ذکر کیا تھا۔ مادی حالات میں سر فہرست جغرافیائی ماحول اور آبادی کا زیادہ یا کم ہونا آتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نہ تو جغرافیائی ماحول اور نہ ہی آبادی کی کمی بیشی فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے پھر فیصلہ کن عنصر کی تلاش میں چلاتے چلتے ہم پیداواری قوتوں تک پہنچے تھے اور پیداواری قوتوں سے ہماری مراد آلات پیداوار اور وہ عوامل تھے جو ان آلات کو اپنی محنت اور مہارت سے استعمال کر کے وسائل زندگی پیدا کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ وسائل زندگی پیدا کرنے میں انسان نہ صرف فطرت بلکہ ایک دوسرے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے پر اثر اندازی کو ہم تعلقاتِ پیداوار کہتے ہیں۔ تعلقات پیداوار انسان باہمی تعاون اور میل جول کے ذریعے چیزیں بناتے ہیں۔ کوئی بھی چیز انفرادی طور پر نہیں کی جاسکتی بلکہ تقریبا ہر مرحلے پر دوسرے افراد کی مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے اور تعاون کیسا ہو گا یا دوسرے لفظوں میں پیداوار کی شکل کیا ہو گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ چیزیں کس طریقے سے پیدا کی جارہی ہیں اور کون سے آلات چیزوں کی تیاری میں استعمال ہورہے ہیں۔ یعنی پیداواری قوتوں کی حالت اور نوعیت کیا ہو گی کیونکہ پیداواری قوتیں ہی تعلقات پیداوار کرتی ہیں جس طرح کی پیداواری قوتیں ہوں گی۔ تعلقات پیداوار کا ویسا ہی ہونا لازم ہے۔ تاریخ میں آج تک پانچ قسم کے تعلقات پیداوار سامنے آئے ہیں۔ -1 قدیم پنچائتی یا قدیم کمیونسٹ -2 آقا۔ غلام -3 جاگیردار، مزارع -4 سرمایہ دار۔ مزدور -5 اشتراکی۔ سوشلسٹ غورکریں تو یہ بات واضح ہو جانے گی کہ پوری انقلابی تاریخ تعلقات پیداوار کی ہی تشریح و تفسیر ہے اس لیے کوئی بھی تاریخی واقعہ اس وقت تک نہیں سمجھ آسکتا جب تک اس کا رشتہ تعلقات پیداوار سے جوڑ نہ لیا جائے اور یہ تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ ان تعلقات کو پیداواری قوتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ پیداواری قوتیں کبھی لمبے عرصے کے لیے ایک ہی نقطے پر نہیں ٹھہرتیں بلکہ تبدیلی اور نشوونما کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں۔ آئے دن کی نت نئی ایجادات اور تکنیکی پیش رفت پیداواری قوتوں کی حالت کی نوعیت کو بدلنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جب پیداواری قوتیں بدلتی ہیں تو لامحالہ آلات پیداوار کو بھی نئے سرے سے ترتیب دینا پڑتا کیونکہ بدلی ہوئی پیداواری قوتوں کے تقاضے ہوتے ہیں کہ ذرائع پیداوار کی مخصوص نوعیت و طریقہ عمل میں جتے ہوئے لوگوں کو نئی صورت کے سانچے میں ڈھلنے پر مجبور کر دیا جائے۔ تعلقات پیداوار کی نشوونما پیداواری قوتوں کی نشوونما پر منحصر ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ تعلقات پیداواری قوتوں پر اثر انداز ہی نہ ہوتے ہوں سچ تو یہ ہے کہ تعلقات پیداوار یا تو پیداری قوتوں کی نشوونما کو تیز کرتے ہیں یا ان میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ اگر پیداواری قوتیں تو ترقی کر جائیں مگر تعلقات پرانی حالت پر ہی ٹھہرے رہیں تو سماج میں بدامنی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ انتشار اور بدامنی اس حد تک موجود رہتی ہے جب تک تعلقات پیداوار پیداواری قوتوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو جائیں۔ تاریخ میں ہمیں جتنی بھی جنگیں، بغاوتیں وغیرہ نظر آتی ہیں وہ دراصل تعلقات کو ہی نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوششوں کے عمل کااظہار ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں بار بار آنے والے بحران کے پیچھے تعلقات پیداوار کی یہی ناموزینت کار فرما ہوتی ہے۔ ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت اور پیداوار کی نوعیت میں کھلی ٹکر ہے۔ پیداوای قوتوں کی راہ میں تعلقات پیداوار رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اس طرح سے تبدیلی کیا جائے کہ یہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی راہ میں مزاحم نہ ہوں بلکہ ان کی نشوونما کو مزید تیز کریں، یہیں سے ہمیں سماجی انقلاب کی معاشی بنیادیں فراہم ہوتی ہیں جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ موجودہ تعلقات پیداوات کو نیست و نابود کر کے ایسے تعلقات پیداوار قائم کیے جائیں جو پیداواری قوتوں کی حالت و نوعیت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ تاریخ کے ادوار سرمایہ دار مورخوں نے انسانی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یورپی تاریخ نگار اسے تین حصوں میں بانٹتے ہیں یعنی قدیم دور، وسطی دور اور جدید دور، جبکہ برصغیر کی تاریخ کو مورخین نے مذہبی اختلافات کی بنیاد پر رقم کیا ہے یعنی ہندوں کی تاریخ، مسلمانوں کی تاریخ اور انگریزوں کی تاریخ۔ تاریخ انسانی کی یہ تقسیم غیر سائنسی اور تعصب پر مبنی ہونے کیساتھ ساتھ گمراہ کن بھی ہے کیونکہ اس نظر سے تاریخ کو پرکھا جائے تو وہ واقعات کا ایک انبار نظر آئے گا جس سے لاکھ کوشش کے باوجود کوئی اصول کوئی نتیجہ یا ارتقااور تبدیلی کا کوئی حتمی سبب اخذ نہیں کیا جاسکتا، تاریخ کا یہ نقطہ نظر ان غیر حقیقی اور فرسودہ نظریات کو پروان چڑھانے اور فروغ دیئے رکھنے کا باعث بنتا ہے جو معاشرے کی سائنسی نہج پر ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور جن کے مطابق تاریخ کے رونما ہونے والے واقعات کسی مافوق الفطرت ہستی کے اشارہ ابرو کے محتاج ہیں۔ آسمانوں کی وسعتوں میں گم یہ ہستی ہر حادثے ہر واقع اور ہر تبدیلی کو روبہ عمل لارہی ہے اور تاریخ محض ان خدائی منصوبوں کی تکمیل کا دوسرا نام ہے۔ اس کے برعکس اگر تاریخ کا سائنسی تجزیہ کیا جائے تو بظاہر الگ تھلگ اور ایک دوسرے سے لا تعلق نظر آنے والے حالات و واقعات باطن میں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں نظر آتے ہیں اور یہ زنجیر ہے پیداواری قوتوں اور تعلقات پیداوار کی مخصوص حالت و نوعیت کی زنجیر۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ان دیکھی زنجیر کے فہم و ادراک کے بغیر اور اس کی تشریح و تفسیر کئے بغیر کسی بھی تاریخی واقعہ کی حقیقی علت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ یہ صرف اور صرف سائنسی اپروچ ہی ہے جو حادثات و واقعات کی پیچیدہ گتھیاں سلجھا دیتی ہے اور تمام تاریخی واقعات کا باہمی رابطہ و تعلق واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیقت کے انکشاف سے جہالت و گمراہی کی آلائشیں دور ہو جاتی ہیں۔ بے یقینی کے سائے مٹ جاتے ہیں اور ابہام کی دھند چھٹ جاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں تاریخی واقعات کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں ان کی علت اور سبب متعین کرنے کے لیے کسی ایشور، کسی اوتار، کسی بھگوان یا کسی رام کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی شعور کو گمراہ کرنے والے تمام فرسودہ اور حقیقی نظریات اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ سائنسی اپروچ پوری انسانی تاریخ کو تعلقات پیداوار کی طرح مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کرتی ہے۔ -1 قدیم پنچائتی دور -2 دورِ غلامی -3 دور جاگیردار -4 دور سرمایہ داری -5 اشتراکی دور قدیم پنچائتی نظام انسانی تہذیب کے آغاز کی نشانی ہے۔ اس وقت انسانوں کو اپنی بقاکے لیے مل جل کر کام کرنا پڑتا تھا۔ جنگلی پھل جمع کرنے، مچھلیاں پکڑنے، شکار کرنے اور رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے محتاج تھے۔اگر وہ مشترکہ طور پر کام نہ کرتے تو بھوک سے مر جاتے یا پھر فطرت کی دیگر قوتیں جن مین جنگلی درندے اور ہمسایہ قبائل بھی شامل تھے انہیں چیر پھاڑ کر کھا جاتے۔ اپنی بقاکے لیے کی جانے والی اس مشترکہ محنت نے ذرائع پیداوار اور خود پیداواری کی مشترکہ ملکیت کو جنم دیا۔ اس دور میں ہمیں ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت کا کوئی تصورنہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سماج میں نہ تو طبقے ہیں اور نہ ہی معاشی لوٹ مار۔ اسی خصوصیت کی بناپر اس سماج کو قدیم کمیونسٹ سماج بھی کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ آلات پیداوار کی ترقی نے قدیم کمیونسٹ سماج کے اندر ایک خاموش انقلاب کو جنم دیا۔ پتھر کے آالات کی جگہ لوہے کے آلات استعمال ہونے لگے۔ جنگلی جانوروں کے شکار کے ساتھ ساتھ گلہ بانی، جوتنے، بونے اور انفرادی دست کاری کا بھی رواج شروع ہو گیا۔ عمل پیداواور میں کام کی تقسیم کا دور آیا اور یہ امکان پیدا ہوا کہ مختلف افراد کے درمیان مصنوعات کا تبادلہ ہو۔ چند لوگوں کے ہاتھ میں دولت جمع ہو۔ ذرائع پیداوار چند لوگوں کے قبضے میں آجائیں اور یہ چند لوگ اکثریت کو ذاتی ملکیت کے ذور پر تابع کر کے اپنا غلام بنالیں۔ یہ ہے دور غلامی جس سے سماج کے تمام ارکان کی مشترکہ اور آزاد محنت کی بجائے غلاموں کی جبری محنت کا رواج ہوا۔ محنت نہ کرنے والے مگر ذرائع پیداواور کے مالک مٹھی بھر لوگ غلاموں کے بھی مالک ہیں۔ وہ انہیں خرید سکتے ہیں۔ بیچ سکتے ہیں۔ قتل کر سکتے ہیں گویا وہ غلام کوئی جانور ہیں۔ مختصر یہ کہ آقا اور غلام کی یہ کہانی لوٹنے والے اور لٹے جانے والے طبقوں کی شدید طبقاتی کشمکش کی کہانی ہے۔ عہد جاگیرداری میں جاگیردار ذرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے مگر ان غلاموں کا بھی پورے طور پر مالک ہوتا جو پیداواری عمل میں جتے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ انہیں قتل نہیں کر سکتا اس لیے نہیں کہ جاگیردار کو کسی نے اخلاقی قدروں کا درس دے دیا ہے بلکہ اسی لیے کہ اب روایتی حلام سے کام نہیں چل سکتا۔ ذرائع پیداوار کی نوعیت ایسی ہو گئی ہے کہ دلچسپی کے بغیر پیداواری عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لوہاڈھالنے اور اس سے مختلف اوزار بنانے کے فن میں ترقی زراعت، باغبانی اور دودھ ہی کی پیداوار میں وسعت انفرادی دست کاری کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کارخانوں کا بھی وجود میں آجانا۔ یہ نشوونما اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ مزدور اپنے کام میں دلچسپی ظاہر کریں۔ روایتی غلام تو مجبور اور بے گھر تھا۔ اس کام سے متعلق دلچسپی نہ تھی اس کے مقابلے میں رعایتی نظام (مزارع/ہاری) جاگیرداری لئے زیادہ موزوں تھا کیونکہ اس کے پاس اپنے مویشی اور کاشت کاری کے اوزار ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے کسی حد تک اپنے کام سے دلچسپی بھی تھی۔ یہ دلچسپی زمین کاشت کرنے اور اپنی فصل کے ایک حصہ کو بطور لگان جاگیردار کے حوالے کرنے کے لیے تھی۔ عہد جاگیرداری میں معیشت زرعی پیداوار کے گرد گھومتی تھی۔ مزارعے کھیتی باڑی کے ذریعے نہ صرف اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے بلکہ محنت کا بہت بڑا حصہ جاگیردار وڈیرے یا مختلف واجبات اور لگانوں کی صورت میں ادا ہوتا تھا۔ یہ لوگ قانونا زمین سے بندھے ہوتے تھے۔ کھیتی باڑی کے علاوہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرنے اور دوسری جگہ جا کر آزاد ہونے کی مطلق اجازت نہ تھی۔ اپنی زرعی پیداوار کا نصف سے تین چوتھائی حصہ ریاست کے نمائندوں، نوابوں، جاگیرداروں اور ان کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ مفت بیگار اور جبری محصولات اور نذرانے اس کے علاوہ تھے اس سماج میں روز مرہ استعمال کی اشیالوگ پیدا کرتے تھے۔ سکے کا رواج بہت کم تھا۔ اناج، اور استعمال کی تمام اشیامل جاتی تھیں جو اپنے میں پیدا نہیں ہوتی تھیں۔ جاگیرداروں، نوابوں وغیرہ کو اپنے اپنے علاقے میں ہر قسم کے عدالتی اختیارات حاصل تھے۔ انہیں مقدموں کا فیصلہ کرنے، مجرموں کو جرمانہ، قید اور موت کی سزا دینے کا حق تھا۔ شہروں میں مزارعوں کی بجائے ہنر مندوں و فنکاروں کی زیادہ اکثریت تھی۔ لوہار، موچی، درزی، حجام، معمار، رنگریز، ظروف ساز، سنگ تراش اور ایسے ہی بیسیوں پیشے رائج تھے۔ا ن دستکاروں کے آلات، اوزار وغیرہ ان کی ذاتی ملکیت ہوتے تھے البتہ ان کی الگ الگ انجمنیں یا گلڈیں (برادریاں) تھیں جن کے قانون اور ضابطوں کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ نظام سرمایہ داوری عہد جاگیرداری کے بطن سے سرمایہ داری کا ظہور ہوا۔ پیداواری طریقوں کی تبدیلی اور ترقی نے نئے تقاضوں کو جنم دیا اور ان تقاضوں یا ضرورتوں کی جیسے تکمیل ہوتی گئی۔ سرمایہ داری نظام جڑ پکڑتا گیا۔ کاشتکار، مزارع یا ہاری اپنا فاصل اناج اور دستکار اپنی مصنوعات اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار میں فروخت کرتا تھا۔ اس کے پیش نظر ضروریات زندگی کا حصول ہوتا تھا اور بس! لیکن جب اور جہاں بازار کا رخ ضروریاتِ زندگی کے لیے نہیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے کیا جانے لگا وہیں ہم کہتے ہیں کہ اب یہ نظام سرمایہ داری ہے۔ کارل مارکس کے بقول سرمایہ داری نظام کا بیچ تو چودہویں اور پندرہویں صدی میں ہی پھوٹنے لگا تھا مگر اس نظام کی کونپلیں سولہویں صدی میں نکلیں۔ پندرہویں صدی تک برطانیہ میں چاکری کا نظام ختم ہو چکا تھا۔ چھوٹے کاشتکار اور کھیت مزدور تھے جو اپنے فاضل وقت میں نوابوں کی زمینوں پر کام کرتے تھے، ان دونوں قسم کے کاشتکاروں کو شاملات یعنی گاں کی مشترکہ زمین پر مساوی حق تھا، شاملات کے علاوہ ہر جگہ ریاستی زمینیں بھی تھیں مگر بیلجیم میں اونی صنعت کو فروغ ہوا اور اون کی مانگ بڑھی تو برطانیہ کی منڈیوں میں بھی اون کا دام چڑھ گیا، نوابوں اور بڑے زمینداروں کے لیے روپیہ کمانے کا یہ سنہری موقع تھا۔ انہوں نے شاملات اور ریاستی زمینوں پر قبضہ کر کے بھیڑوں کی افزائش شروع کر دی۔ یوں اون کی برآمد سے نہ صرف سرمائے کا ارتکاز ہوا بلکہ ہزاروںبے دخل شدہ کاشتکار بھی پرولتاریہ میں تبدیل ہو گئے۔ ان کے پاس اپنی قوت محنت کے سوا بیچنے کے لیے کچھ باقی نہ بچا، لہذا انہوں نے مجبورا لندن، گلاسکو اور دوسرے شہروں کا رخ کیا۔ بازار ان محنت کشوں سے بھر گئے اور صنعت کار انہیں کم سے کم اجرت پر ملازم رکھنے لگے۔ مینوفیکچرنگ دور جب رفتہ رفتہ مصنوعات کی مانگ بڑھنے لگی تو کاروباری طبقے نے ایک ہی پیشے کے بہت سے کاریگروں کو ایک ہی جگہ اکٹھا کر کے ان سے کام لینا شروع کر دیا۔ یہ جگہ کارخانہ کہلائی۔ یہ کارخانہ، یہاں استعمال ہونے والے آلات و اوزار اور خام مال سب اس کی ذاتی ملکیت تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تیار شدہ مال بھی اس کی ذاتی ملکیت بن گیا۔ کاریگر جو پہلے آزاد ہنر مند تھے۔ کاروباری طبقے کے اجرتی مزدور ہو گئے۔ ایک ہی جگہ بہت سے کاریگروں کے کام کرنے سے تقسیم کار ممکن ہوئی جس سے پیداواور کی فی کس فی گھنٹہ مقدار بڑھ گئی اور سرمایہ کے منافع میں اسی نسبت سے اضافہ ہو گیا یہ سرمایہ داری کا پہلا دور تھا جسے مینو فیکچرنگ دور کہتے ہیں۔ فیوڈل دور کے پیداواری عمل اور مینوفیکچرنگ کے پیداواری عمل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں کاروباری طبقہ مال اپنے ذاتی استعمال کے لیے تیار نہیں کرواتا تھا اور نہ ہی مال کو بازار میں اس غرض سے بیچتا تھا کہ اپنی ذاتی اشیائے ضرورت خریدے بلکہ اس کا واحد مقصد منافع کا حصول یا دوسرے لفظوں میں اپنے سرمائے میں اضافہ کرنا ہوتا تھا۔ اشیاکی بجائے سرمایہ پیداوار۔۔۔زائد سرمایہ ہو گیا۔ یہاں کلیسا کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ فیوڈم ازل کا دوسرا بڑا اہم ستون تھا۔یہ یورپ کی نہایت دولت مند سیاسی طاقت تھی۔ اٹلی کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی لاکھوں ایکڑ زمین اس کے قبضے میں تھی۔ جس پر اس کو کوئی لگان یا محصول ادا نہیں کرنا پڑتا تھا اور کلیسا کے کاشتکار پادریوں کے غلام تصور کئے جاتے تھے۔ مزید برآں نوابوں کی رعایا کو بھی آمدنی کا دسواں حصہ کلیسا کو ادا کرنا پڑتا تھا کلیسا کے پادری ہر قصبے اور شہر میں پھیلے ہوئے تھے۔ جائیداد کی نگرانی کے علاوہ لوگوں کے ذہنوں پر بھی انہی کی حکمرانی تھی کیونکہ پادریوں کے سوا کسی کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ رومن کلیسا ان پڑھ نوابوں سے بھی زیادہ معاشرتی اصلاح و ترقی کا دشمن تھا۔ ان کی مذہبی عدالتوں میں بادشاہ بھی مداخلت کی جرات نہ کرتا تھا۔ پادریوں کی مسلسل کوشش رہتی تھی کہ ایسے عناصر سر نہ اٹھانے پائیں جن سے کلیسائی آمدنی یا ذہنی و فکری اجارہ داری کو خطرہ ہو۔ کلیسا کی سزاں کے خوف سے ہر شخص کانپتا تھا۔ اگر کسی شخص کے عقائد کے بارے میں شبہ بھی ہو جاتا تو اسے آگ میں زندہ جلا دیا جاتا۔ یورپ کے فیوڈل طبقے اور رومن کلیسا کا مفاد ایک تھا۔ دونوں معاشرتی یا فکری اصلاح کے شدید مخالف تھے لطف یہ ہے کہ پاپائے روم اور دوسرے لاٹ پادری صرف اٹلی کے نواب خاندانوں ہی سے منتخب کئے جاتے تھے۔ اٹلی کے تجارتی شہروں میں مینوفیکچری کا دور چودہویں صدی میں شروع ہوا اور تاجروں نے دست کاری کے بڑے بڑے مراکز قائم کر لیے اس سے معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبے بھی متاثر ہوئے۔ شہروں کی فضاپر رونق ہو گئی۔ سامان عیش و عشرت آرام کی فروانی سے لوگوں کے مزاج و مذاق میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں۔ قصہ کوتاہ یہ اٹلی کی نشا ثانیہ کا دور ثابت ہوا۔ مشینی دور گو مینو فیکچرنگ کا طریق پیداوار فیوڈل طریقہ پیداوار سے بہت بہتر تھا لیکن اپنے داخلی تضادات کو حل کرنے کی قدرت اس میں نہ تھی۔ اس میں پیداوار کو نہ تو ایک مخصوص سطح سے اوپر لے جانے کی گنجائش تھی اور نہ ہی گلڈوں کی بندشوں کو توڑنے کی ہمت اور اہلیت۔ ہر مینوفیکچرر ہنر مند اور سوداگر کو اپنے پیشے کی گلڈ کارکن بننا لازمی تھا۔ نیم ہنر مند اور بے ہنر مند مزدوروں کو سرے سے گلڈ بنانے کی اجازت ہی نہ تھی۔ مینو فیکچرنگ نے اٹلی کی تجارتی ریاستوں میں تقریبا سو سال تک بڑی رونق دکھائی۔ اسی اثنامیں فرانس، سپین، پرتگال، ہالینڈ اور برطانیہ کے بڑے بڑے شہروں میں بھی فیوڈل نوابوں کی مخالفت کے باوجود مینوفیکچرنگ کا پیداواری طریقہ رائج ہو گیا۔ ادھر امریکہ اور ہندوستان کے بحران راستوں کی دریافت نے مغربی یورپ کی تقدیر بدل دی۔ بین الاقوامی تجارت کی خاطر بڑی بڑی کمپنیاں قائم ہونے لگیں۔ تجارت پر اجارہ داری کے لئے، امریکہ کی سونے چاندی کی کانوں پر قبضہ کرنے کی خاطر، افریقی غلاموں کی خرید و فروخت میں سبقت لے جانے کی خاطر سپین، پرتگال، ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ میں اقتصادی اور سیاسی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں بلاخر فتح برطانیہ کو حاصل ہوئی اور وہ اپنے سب حریفوں سے آگے نکل گیا۔ سولہویں اور سترہیں صدی میں برطانیہ میں کان کنی، شیشہ سازی، ادنی پارچہ بانی اور اسلحہ سازی کی صنعتیں خوب پھیلی پھولیں اور تب نئے حالات پیداوار اور فیوڈل ازم کا پرانے پیداواری رشتوں میں تصادم ہونے لگا۔ ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کو یقین ہو گیا کہ صنعت و حرفت اور تجارت کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو سیاسی اقتدار حاصل کئے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا سترہیں صدی کی ابتدامیں لندن کے سرمایہ داروں اور بادشاہ جیمز اول کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی جو چارلس اول کے عہد میں باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئی۔ 1649 میں بادشاہ کا سر قلم ہوا اور سیاسی اقتدار فیوڈل طبقے سے نکل کر سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں آگیا۔ لیکن برطانیہ کا پیداواری نظام ہنوز مینوفیکچرنگ ہی کے دور میں تھا اور سرمایہ دار طبقے کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا تھا۔ غیر انسانی طاقت سے چلنے والی خود کار مشینوں کی ایجاد وقت کی اہم ضرورت ہو گئی۔ اگرچہ پن چکیوں اور ہوائی چکیوں سے کام لیا جاتا تھا لیکن یہ صرف آبشاروں دریا کے کناروں اور تیز ہواں میں ہی زیر استعمال آسکتی تھیں۔ وہ جو کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو دیگر میکانکی ایجادوں کا سلسلہ چل نکلا جو سوتی پارچہ بانی کی صنعت سے شروع ہو کر مختلف تبدیلیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ ان ایجادات کی وجہ سے سبھی صنعتوں کے پیداواری طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہو گئیں۔ پیداواری رشتوں کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور یوں برطانیہ کے بعد فرانس، ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی اور شمالی امریکہ میں بھی صنعتی انقلاب آگیا۔ خام مال اور مصنوعات کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ صنعت کار ریاستیں منڈیوں کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔ سرمایہ داری مقرر ہو گئی۔ ہر چیز کے خریدار وجود میں آئے۔ ہر شے بکا مال ہو گئی۔ انسان کا ضمیر اس کی سوچ، اس کے افکار اس کے عقائد لوح علم و فن سب کے دام لگنے گے۔ ہم نے دیکھا کہ قدیم اشتراکی سماج نے دور غلامی کو جنم دیا۔ دور غلامی کی کوکھ سے جاگیرداری سماج وجود میں آیا اور جاگیرداری کے بطن سے نظام سرمایہ داری پیدا ہوا۔ انفرادی دستکاریوں نے مینو فیکچرنگ کی شکل اختیار کی اور مینو فیکچرنگ بعد میں مشینی دور میں ڈھل گیا۔ آج بھی مشینی دور کا ارتقاجاری ہے۔ سامراج کا ظہور، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قیام اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹیکنالوجی روبوٹ ٹیکنالوجی اور سپر کنڈکڑ کی ایجاد نے سرمایہ داری نظام کو ارتقاکی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اوپر کی بحث میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آچکی ہے کہ پیداواری قوتوں کے ارتقاکے ساتھ ساتھ پیداواری رشتوں کا ارتقابھی لازم ہے اور سماج کی ایک سے دوسرے دور میں تبدیلی دراصل انہیں پیداواری رشتوں کی نئے سرے سے ترتیب کا دوسرا نام ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج سرمایہ داری نظام جس مقام پر کھڑا ہے کیا پیداواری رشتے اس سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ پیدوار کی اجتماعی ہیئت کا تقاضا ہے کہ پیداواری رشتوں میں بھی انفرادیت کی بجائے اجتماعیت نظر آئے۔ سوشلزم کی جدوجہد اسی اجتماعیت کے حصول کی کوشش کا نام ہے اور مادی تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تمام تاریخ مختلف طبقوں کی آپس میں کش مکش یعنی طبقاتی جدوجہد کا نام ہے کیونکہ نظام جب تبدیل ہوتا ہے تب اس میں سماج ترقی دینے کی اہلیت نہ رہے اور ایک طبقہ نئے تعلقات پیداوار ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس نظام کا خاتمہ کر دے۔ موجودہ سرمایہ داری نظام کا گورکن مزدور طبقہ ہے۔ سرمایہ داری نظام اگرچہ گل سڑ چکا ہے لیکن اس نظام کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک مزدور طبقہ اسے ختم کر کے سوشلزم کا دور بپا نہیں کر دیتا۔ 
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی طبقہ پرنٹ میڈیا کو کیسے استعمال کرے؟
محمد عاصم حفیظ

پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات ، رسائل و جرائد وغیرہ اہم ترین ذرائع ابلاغ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ دینی حلقے زیادہ تر اسی پر انحصار کرتے ہیں جبکہ یہ بھی اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک میں سینکڑوں کے حساب سے دینی جرائد شائع ہوتے ہیں ۔ اخبارات دینی ایڈیشن شائع کرتے ہیں جبکہ اہم مذہبی تہواروں کے موقعے بھی خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ تصاویر کے معاملے پر معمولی اختلاف کے علاوہ دینی طبقہ اس قسم کی صحافت میں کافی حد تک دلچسپی رکھتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی سب سے زیادہ سرگرمی بھی اسی میدان میں نظر آتی ہے ۔
شعبہ نشر واشاعت کی بہتری:
بہت سی جماعتوں نے اپنے اخبارات جاری کرنے کے تجربات بھی کئے ہیں جو کہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں جبکہ علمائے کرام اور دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد دیگر اخبارات اور رسائل کے لیے بھی دینی مواد فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے عوام الناس کو یقیناً فائدہ پہنچتا ہے ۔ ان سب کوششوں کے باوجود اب بھی پرنٹ میڈیا کے میدان میں محنت کی ضرورت ہے ۔ میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ بھی تربیت یافتہ افراد کی کمی ہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے شعبہ نشر و اشاعت اور مختلف دینی رسائل کے ذمہ داران بغیر کسی پیشہ ورانہ تربیت کے اس کام سے منسلک کر دئیے جاتے ہیں ۔ یہ المیہ ہی ہے کہ آج کے اس دور میں کہ جب ذرائع ابلاغ کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے دینی اور مذہبی جماعتیں شعبہ نشرواشاعت میں محض خانہ پری کے لئے تقرریاں کرتی ہیں یعنی جس کسی اہم بندے کے لئے کوئی بھی عہدہ نہ بچے تو اسے شعبہ نشرواشاعت کا ذمہ دار بنا دیا جاتا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ بعض بڑی بڑی مذہبی جماعتوں کے شعبہ نشرواشاعت بھی کچھ زیادہ سرگرمی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ دراصل یہ لوگ اپنے رہنماؤں کی خبریں چھپوانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا کا اسٹریکچر کچھ ایسا ہے کہ اس میں حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی ، مذہبی اور دیگر شخصیات کو اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کے لئے مخصوص ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ خبریں چھپوانے کے لئے رپورٹرز کی خوشامد اور بعض مواقع پر رشوت بھی دی جاتی ہے ۔ خیر بہت سی جماعتیں اس قسم کا خرچہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لئے ان کے رہنما ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں ۔ ایک اور بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اخبارات میں شائع ہونیوالی خبریں کبھی بھی دعوتی حوالے سے مفید ثابت نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کی نوک پلک سنوارنے والے سب ایڈیٹرز ہر خبر کو بے ضرر اور سیاسی ماحول کے مطابق بنا دیتے ہیں ۔ اخبار کی خبر نظریاتی پیغام کو واضح نہیں کرتی ۔ اس سے صرف یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بعض رہنما اپنے بیانات کے ذریعے عوامی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ معمول یہی ہے کہ اخبار میں خبر صرف مشہور علمائے کرام اور سیاست سے منسلک مذہبی رہنماؤں کی ہی چھپتی ہے جبکہ دینی تبلیغ اور خالص علمی کاموں میں مصروف علمائے کرام کو ہرگز خبروں میں جگہ نہیں مل سکتی ۔ اس وضاحت کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اخبارات میں بیانات چھپوانے کے لئے دیکھائی جانیوالی سرگرمی دینی اور مذہبی جماعتوں کے اصل مقصد کے لئے کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی۔ اس سے ہرگز یہ مراد بھی نہیں کہ دینی جماعتوں کے عہدیداران اور مذہبی رہنما بلکل ہی اس سے لاتعلق ہو جائیں ۔ بلکہ میرا مقصد تو بس یہ کہنا کہ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ صرف بیانات چھپوانے کے لئے ہی کوششیں نہ کی جائیں ۔ دینی حلقے پرنٹ میڈیا سے بے پناہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں ۔
دینی جرائد میں جدت :
دینی جماعتوں کے جاری کردہ اخبارات اور رسائل تو ان کے پیغام کے عکاس ہوتے ہی ہیں جبکہ دیگر اخبارات اور جرائد کو بھی دینی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ دینی جماعتیں اپنے زیر انتظام چلنے والے اخبارات اور جرائد کو معیاری بنائیں ۔ ان کی تیاری اور اشاعت کو بہتر بنانے کے لئے پیشہ ورانہ افراد کا تقرر کیا جائے ۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ کسی دینی رسالے کو چلانے اور اس کی تیاری وغیرہ کا کام بھی رضاکارانہ طور پر کارکنوں سے ہی لیا جاتا ہے ۔ تحریریں مختلف قارئین روانہ کر دیتے ہیں یا پھر زیادہ تر مختلف کتابوں سے اخذ کردہ مواد ہی قسط وار مضامین کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے ۔ بہت کم دینی رسائل اور اخبارات ایسے ہیں کہ جن میں قارئین کو ان کی ضرورت کے مطابق اور نیا مواد پڑھنے کو ملتا ہے ۔ ان رسائل کو تیار کرنیوالے افراد کے خلوص پر تو شک نہیں کیا جا سکتا لیکن پیشہ ورانہ تربیت کی کمی اور تحریروں کو عوامی مزاج کے مطابق نہ ڈھالنے کے باعث دینی رسائل زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرپاتے اور اکثر ایک محدود طبقے تک ہی رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ دینی رسائل میں زیادہ تر تحریریں مشکل پیرائے میں لکھی گئی ہوتی ہیں جو عام لوگوں کے لئے زیادہ کشش نہیں رکھتیں ۔ اشتہارات کی کمی اور وسائل نہ ہونے کے باعث دینی رسائل مشکل سے ہی معیار برقرار رکھ پاتے ہیں ۔ اس لئے ضروری یہ ہے کہ دینی طبقہ سب سے پہلے تو اپنے زیر انتظام ہونیوالی صحافت کو لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنائے ۔ دینی رسائل کا اسلوب زیادہ سے زیادہ عوامی بنایا جائے تاکہ یہ رسائل زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائل حاصل کر سکیں ۔
پیشہ ور افراد کا تقرر :
بڑی دینی جماعتیں اور اچھی مالی حیثیت رکھنے والے دینی اخبارات کے لئے مذہبی رجحان رکھنے والے پیشہ ورانہ افراد کو متعین کیا جائے ۔ یا پھر پہلے سے مقرر عملے کے لئے صحافتی اصول و ضوابط اور پراپیگنڈا کے طور طریقوں کی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ دینی رسائل میں چھپنے والی ہر ایک تحریر کو خوب جانچ پرکھ کر آسان فہم بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں ۔ اس کے لئے بعض نامور لکھاریوں سے بھی تحریریں لکھوائی جا سکتی ہیں یا ان سے ایڈیٹنگ کے سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ تحریروں کو زیادہ پرکشش بنانے کا فن جانتے ہیں جبکہ موضوعات کے انتخاب کے سلسلے میں بھی مفید رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ انہیں کل وقتی ملازم ہی رکھا جائے بلکہ ان سے جزوقتی کام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اچھے لکھاری دینی حلقے سے عقیدت تو رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے حوالے سے کوئی میدان عمل ہی موجود نہیں ہوتا۔ اس لئے دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے شعبوں کو مضبوط بنائیں تاکہ ایسے افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
نمائندگان کا تقرر :
دوسری جانب وسائل کی کمی اور محدود رسائی کی وجہ سے دینی رسائل کے لئے تازہ مواد کی فراہمی انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے ۔اس مقصد کے لئے ہر رسالے کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل کے لحاظ سے ایک پالیسی ترتیب دیں۔ اگر تو ممکن ہو کسی اچھے ، تربیت یافتہ اور دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے صحافی کو ہی رسالے کی ایڈیٹر شپ دی جائے ۔ اگر یہ ممکن نہیں تو اپنے بندوں کے لئے تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ دیگر اخبارات اور رسائل کی طرح دینی جرائد بھی مختلف علاقوں میں نمائندگان کا تقرر کریں جو کہ نہ صرف ان کی اشاعت بڑھانے کا باعث بنیں گے جبکہ مواد کی فراہمی کا بھی باعث ہوں گے ۔ جس طرح اخباری نمائندگان سرکاری ، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں کی رپورٹ بھیجتے ہیں بلکل اسی طرح دینی رسائل کے نمائندگان دینی سرگرمیوں کی رپورٹ بھیجیں جبکہ اس سے بھی ضروری یہ ہے کہ اپنے علاقے کے اہل علم سے اچھی تحریریں لکھوائیں ۔ یہ نمائندگان رسالے کا تعارف کرائیں اور اپنے نظریے کے حامل پڑھے لکھے افراد اور علمائے کرام کو رسالے کے لئے مواد فرام کرنے پر راضی کریں۔ اس طرح دینی رسائل کے لئے کافی تازہ مواد مل سکتا ہے جس سے یقیناً لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی۔ ان نمائندگان کی رسالے کے لئے اہل علم ، دینی رہنماؤں ، بزرگان اور اہم علمائے کرام کے انٹرویوز وغیرہ کرنے کی ڈیوٹی بھی لگائی جا سکتی ہے۔ دینی جماعتوں کے کارکنان بغیر کسی معاوضے کے یہ ذمہ داری نبھانے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔ صرف ان کو چند بنیادی باتوں سے متعلق تربیت فراہم کر دی جائے ۔ انٹرویوز وغیرہ کے لئے ان کو سوالنامہ ایڈیٹر کی جانب سے بھی بھیجا جا سکتا ہے جبکہ ان کی تحریروں کو مزید بہتر اور قابل اشاعت بنانے کی ذمہ داری بھی آخر کار ایڈیٹر کی ہی ہو گی ۔
ایڈیٹرز کی ذمہ داری :
مذہبی رسالے کی اشاعت کے ذمہ دار افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ حالات حاضرہ سے بخوبی آگاہ ہوں اور خالص دینی احکام ومسائل کے ساتھ دیگر موضوعات پر بھی مواد شامل کریں۔مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے رسائل میں دینی مسائل کی علمی بحثوں کے ساتھ ساتھ عوامی مزاج کے مطابق تحریریں بھی شائع کریں۔ یعنی کچھ رسائل تو علمی سطح کے ہوں جبکہ بعض کو عوامی بنانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی ایک ہی رسالے میں علمی مباحث اور عوامی تحریروں کو جمع کر دیا جائے ۔ دینی رسائل اور اخبارات کو معاشرے کی ضرورتوں کے لحاظ سے تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ لادین اور سیکولر طبقہ لوگوں کی توجہ دین سے ہٹانے کے لئے پرنٹ میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے ۔ دینی طبقہ کو بھی چاہیے کہ ان کے بنائے گئے معیارات کو بدلنے کی کوشش کرے ۔ لوگوں کے لئے ایسا متبادل اور دلچسپ مواد پیش کیا جائے کہ جو ایک طرف دینی تقاضوں کو پورا کرتا ہو جبکہ دوسری جانب اس قدر دلچسپ اور عوامی نوعیت کا بھی ہو کہ بڑے پیمانے پر پڑھا جائے۔ دینی رسائل کے ایڈیٹرز معاشرتی مسائل کو زیر بحث لائیں اور ان کے متعلق دینی موقف واضح کریں ۔ اپنے قارئین کو عالمی حالات سے آگاہ رکھیں اور رسالے کو متنوع موضوعات سے مزیں کریں۔
بچوں اور خواتین کے لئے مواد :
بچوں ، خواتین اور نوجوان طبقے کے لئے مواد کی تیاری ایسی ہونی چاہیے کہ جو انہیں اسلامی روایات کا پاسدار بنانے اور دینی احکام و مسائل کا پابند بنانے میں مددگار ہو ۔ اس مقصد کے لئے اخلاص ، دینی علم ، بھرپور محنت کے ساتھ ساتھ تربیت اور پیشہ ورانہ اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی بھی ضرورت ہے ۔ نظریات ، عقائد ، اسلامی روایات اور دیگر مذہبی احکام و مسائل کو بدلنے کی نہیں بلکہ ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور جس دن اسلامی تحریکوں نے پرنٹ میڈیا کا ایسا استعمال شروع کر دیا کہ جس کے ذریعے عوام کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا جا سکے تو یقیناً اس سے ایک انقلابی تبدیلی رونما ہو گی۔بعض دینی رسائل اور اخبارات اس میدان میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں ۔ ان شااللہ اگر دیگر حلقوں میں بھی یہ جذبہ بیدار ہوجائے جبکہ پہلے سے موجود افراد اپنی محنت میں اضافہ کر دیں تو یقیناً بہت ہی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔
اخبارات کے دینی ایڈیشن:
اسی طرح موجود پرنٹ میڈیا کو دینی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا سوال بھی کافی اہم ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت کہیں بھی پرنٹ میڈیا کو روزانہ ہی کافی زیادہ تازہ مواد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خبروں کے علاوہ اخبار یا رسائل کے دیگر حصوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ کالم ، رنگین صفحات ، ایڈیشنز ، خصوص اشاعتیں اور دیگر سلسلوں کے لئے دینی سوچ اور فہم رکھنے والے افراد کو مواد فراہم کرنا چاہیے۔ دینی جماعتوں کے شعبہ نشرواشاعت کو چاہیے کہ خبریں چھپوانے کے علاوہ اس طرف بھی توجہ دیں ۔ پاکستانی اخبارات میں ہر جمعتہ المبارک کے دن دینی ایڈیشن شائع کیا جاتا ہے ۔ المیے کی بات یہ ہے کہ دینی حلقے تمام اخبارات کے ان دینی ایڈیشنز کے لئے ہی مضامین اور عوامی دلچسپی کا مواد فراہم نہیں کر پاتے۔اکثر ان ایڈیشنز میں مختلف بڑے علمائے کرام کی کتابوں کو ہی قسط وار شائع کیا جاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے پڑھے لکھے افراد اور علمائے کرام باقاعدگی سے ان ایڈیشنز میں لکھا کریں ۔ حالات حاضرہ کے مطابق اور ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے کہ جن سے اخبار کے قارئین زیادہ متاثر ہوں ۔ مثلًا اگر یورپ میں حجاب پر پابندی کا مسئلہ درپیش ہے تو اخبارات کے دینی ایڈیشنز میں دلائل کے ساتھ اسلامی موقف واضح کیا جائے نہ کہ ان دینی ایڈیشنز میں کسی حج و عمرے سے متعلق مسائل کی کتاب کو قسط وار شائع کیا جا رہا ہو ۔ معاشرتی برائیوں کو اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیا جائے۔کرپشن کے قصے اگر اخبار کی خبروں میں ذکر ہو رہے ہیں تو دینی ایڈیشن میں بدعنوانی ، جھوٹ ، رشوت اور اقربا پروری سے متعلق اسلامی احکامات کا تذکرہ ہو ۔ اخبارات میں دینی ایڈیشن کے انچارج کو تو اپنا صفحہ بروقت تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ معاشرے کی دینی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے مواد تلاش کرے۔ یہ ذمہ داری تو دینی جماعتوں کی ہے کہ وہ ایسے مسائل کہ جو معاشرے میں لادینیت پھیلا رہے ہیں یا جن سے اسلامی روایات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ان کو زیر بحث لائیں۔
سنڈے میگزین :
اسی طرح سنڈے میگزین میں بھی ایک خاص حصہ دینی مضامین کے لئے مختص ہوتا ہے ۔ اس میں بھی اچھے مضامین شائع کرائے جا سکتے ہیں ۔ سنڈے میگزین میں کافی زیادہ جگہ میسر ہوتی ہے اور اس میں مواد شائع کرانا انتہائی آسان ہوتا ہے ۔ اس کے موضوعات بھی سیاسی سے زیادہ معاشرتی طرز کے ہوتے ہیں جبکہ دینی موضوعات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے ۔ مثلًا اسلام میں عورت کا مقام ، اسلام کا نظریہ تفریح ، اسلام اور مغرب کی کشمکش ، مغرب کی اسلام مخالف سازشیں ، صہیونیت کا کردار ، اسلام کا خاندانی نظام ، معاشرتی تبدیلی میں علمائے کرام کا کردار ، مختلف علمائے کرام کے واقعات ، ان کا تعارف وغیرہ وغیرہ۔
اشاعت خاص:
اخبارات کی جانب سے مختلف دنوں کی مناسبت اور تہواروں کے موقعے پر خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اگر دینی جماعتوں کے شعبہ نشرواشاعت سے منسلک افراد کو اس کا احساس ہوتو پہلے سے ہی ان کے لئے مضامین لکھوائے جا سکتے ہیں ۔ یا پھر علمائے کرام بھی اس کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ چند روز بعد فادرز ڈے ، مدرز ڈے ، مزدوروں کا دن ، تمباکو نوشی کے خاتمے کا دن ، منشیات کے خلاف دن وغیرہ آنے والے ہیں ۔ ان کے لئے پہلے سے ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق مضمون لکھ کر اخبارات کو ارسال کئے جائیں ۔ یقین مانیں کہ یہ مضامین ضرور شائع ہوں گے اور اس طرح عوام کو یہ بھی احساس ہو گا کہ دینی طبقہ معاشرے کی ضروریات سے آگاہ ہے اور ایسے مسائل کو بھی زیر بحث لانے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جو موجودہ دور میں انسانی زندگی کے لئے مشکل پیدا کر رہے ہیں ۔ اس کا دوسرا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ منشیات ، تمباکو نوشی ، ماں اور باپ کے دن وغیرہ کے حوالے سے صرف لادین اور مغرب زدہ طبقہ ہی سرگرم نہ ہو بلکہ ان مواقع کو اسلامی تعلیمات کے فروغ اور لوگوں میں دین سے متعلق شعور کی بیداری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے حلقے ایسے دنوں کی مخالفت میں ہی پورا زور لگا دیتے ہیں حالانکہ ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہیے ۔ ہاں البتہ کچھ ایسے تہوار اور دن کہ جو اسلامی تعلیمات کے صریح مخالف ہوں اور ان سے بے ہودگی اور فحاشی وغیرہ کا تاثر ملتا ہو یعنی ویلنٹائن ڈے ، نیو ائیر نائٹ وغیرہ تو ان کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی جائے۔ لیکن یہ مخالفت صرف آپس میں بحث و تکرار تک ہی محدود نہ ہو بلکہ ان تہواروں کو معاشرے کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت کرنے کے حوالے سے بھرپور مہم چلائی جائے اور میڈیا میں مواد فراہم کیا جائے ۔ ان دنوں کے خلاف اسلام اور معاشرتی زندگی کے لئے نقصان دہ ہونے کے حوالے سے مضامین شائع کیے جائیں ۔ اگر دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے کسی لکھاری کا مضمون علمی نوعیت اور موقف کی بھرپور ترجمانی کرتا ہو گا تو ضرور شائع ہوجائے گا ۔
ایڈیٹرکے نام خط:
اور اگر مضامین ، رنگین صفحات اور سنڈے میگزین وغیرہ میں نہ شائع ہونے کا خدشہ ہوتو اسے ایڈیٹر کے نام خط کے طور پر بھیج دینا چاہیے ۔ اخبارات ایڈیٹرز کے نام خط کے کالم میں ہر قسم کا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایڈیٹر کے نام خط بھی ایک اہم جگہ ہے کہ جہاں آپ اپنا موقف واضح کر سکتے ہیں اور اس کالم کو کافی پڑھا بھی جاتا ہے ۔ دینی طبقے سے منسلک افراد کو چاہیے کہ وقفے وقفے سے معاشرتی مسائل ، دین سے دوری ، بے راہ روی ، تہذیب کی بربادی ، فحاشی و عریانی اور ایسے ہی مسائل کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی تحریریں ایڈیٹر کے نام خط میں لکھتے رہیں ۔ جو کہ زیادہ تر شائع ہو جاتی ہیں اور بہت سے لوگ ان سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔سنڈے میگزین وغیرہ میں دین سے دوری اور معاشرتی بگاڑ سے متعلق واقعات بھی ارسال کیے جا سکتے ہیں ۔
ادارتی صفحہ:
ایک اور اہم ترین چیز ادارتی صفحے کو استعمال کرنا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اخبارات سینئر صحافیوں یا پھر نامور افراد کے کالم ہی شائع کرتے ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کے لئے ادارتی صفحے میں جگہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ۔ اگر دینی جماعتیں ، ادارے اور افراد ان ادارتی صفحات پر اپنے مطلب کا مواد دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ اول یہ کہ ایسے علمائے کرام جو کہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں وہ کالم لکھا کریں ۔ مثلا جماعتوں کے سربراہان وغیرہ ۔ ان رہنماؤں کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے ان کے کالم ضرور شائع ہو جائیں گے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان رہنماؤں کی مصروفیت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ مستقل کالم نہیں لکھ سکتے ۔
دینی رہنماؤں کے نام پر کالم لکھنا:
اس کا حل یہ ہے کہ بعض اچھے لکھنے والے افراد مذہبی رہنماؤں کے لئے کالم لکھا کریں جو کہ ان کے نام سے شائع ہوں ۔ بڑے دینی رہنما کالم کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر ایسے لکھاریوں کو بتا دیا کریں ۔ یہ طریقہ بہت زیادہ قابل استعمال ہے اور بہت سے اہم لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی جماعت کا منشور کافی تجربہ کار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تیار کرتی ہے جبکہ اس کا اعلان تو صرف لیڈر ہی کرتا ہے۔ اخبارات کو بھیجنے سے پہلے یہ کام ضرور اس رہنما کو دکھا یا جائے تا کہ وہ اس میں ضروری ترامیم وغیرہ کر سکے جبکہ میڈیا اور اپنی گفتگو میں اس کی وضاحت بھی کر سکے ۔
کالم نگاروں کو مواد کی فراہمی:
دوسرا طریقہ پہلے سے موجود کالم نگاروں کو مواد فراہم کرنا ہے۔ مثلا قانون توہین رسالت ﷺ میں تبدیلی ، حدود آرڈینینس کے خاتمے وغیرہ کے معاملات سے متعلق ملک میں بحث جاری ہو تو یہ مفید ثابت ہوتا ہے کہ بعض بڑے کام نگار بھی ان مسائل پر دینی جماعتوں کے موقف اور اس بارے میں اسلامی تعلیمات کے متعلق تحریر لکھیں ۔بڑے کالم نگاروں کی مصروفیت بھی کافی زیادہ ہوتی ہے ۔
دینی جماعتوں سے منسلک افراد اور علمائے کرام اگر خط ، ای میل وغیرہ کی صورت میں یا بالمشافہ مل کر اس بارے میں تحقیقی مواد فراہم کر دیں تو ان میں سے اکثر کالم لکھنے پر راضی ہو جائیں گے ۔ کیونکہ بہت سے اچھے لکھاری دین سے لگارکھتے ہیں ۔ حالات حاضرہ کے بڑے ایشوز کے علاوہ معاشرے میں موجود دیگر مسائل سے متعلق اسلامی موقف واضح کرنے اور لوگوں میں دینی شعور کی بیداری کے حوالے سے بھی کالم لکھنے پر راضی کیا جا سکتا ہے ۔ مثلًا کسی مغربی ملک میں کسی عالم دین کو گرفتار کر لیا گیا ہے یا کسی تنظیم پر بغیر کسی وجہ کے پابندی لگا دی گئی ہے ، یا پھر اسلام مخالف کوئی کتاب شائع ہوئی ہے ۔ کیونکہ دینی طبقہ ہی ایسی خبروں میں دلچسپی لیتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں اس سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لئے کوشش بھی کرے ۔ اس کے لئے زیادہ پڑھے جانیوالے کالم نگاروں کی توجہ اس طرف دلائی جا سکتی ہے ۔ اس طرح کسی بھی موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل ہو گی ۔ یعنی پہلے سے موجود کالم نگاروں تک رسائی حاصل کرکے ، ان کو مواد فراہم کرکے اور ان کی توجہ کسی خاص مسئلے کی طرف مبزول کراکے بھی کافی زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دینی جماعتوں کے شعبہ نشرواشاعت کو چاہیے کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی تحریروں کو اخبارات و رسائل تک رسائی دلانے کے لئے کوششیں کی جائیں ۔ یعنی جو بھی دینی موضوعات پر اچھا لکھتا ہو اس کی تحریر کو شائع کرایا جائے ۔ اس طرح حوصلہ افزائی کرنے سے دین سے لگارکھنے والے نئے لکھاری جلد ہی اچھی تحریریں لکھنا شروع ہو جائیں گے۔
رپورٹرزکا کردار:
پرنٹ میڈیا میں رپورٹرز اور نمائندگان سے تعلقات استوار کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ افراد اپنے اداروں کو تحریریں ، خبریں وغیرہ فراہم کرتے ہیں ۔ دینی پروگراموں کی کوریج اور ان کی رپورٹس شائع کرانے کے لئے رپورٹرز سے اچھے تعلقات ضروری ہے ۔ مختلف قسم کے مسائل اور حالات کے مطابق انٹرویوز کرنا بھی رپورٹرز کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذہبی جماعتوں کی بیٹ کرنیوالے رپورٹرز سے واقفیت رکھی جائے ۔ اس سے خبریں چھپوانے میں بھی آسانی رہتی ہے ۔ بعض اوقات کچھ دینی جماعتوں کے کارکنان ہی صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرکے رپورٹرز بن جاتے ہیں جس کے کافی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ دینی پس منظر رکھتے ہیں اس لئے مختلف معاملات میں مذہبی رہنماؤں کی رائے لینا نہیں بھولتے ۔ رپورٹنگ کسی بھی اخبار یا رسالے کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے اس لئے مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ اس شعبے سے منسلک افراد کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے جائیں۔ وقفے وقفے سے مذہبی رہنماؤں کے انٹرویوز کی اشاعت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس سے عوام تک مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان رپورٹرز کو ایسی اسٹوریز پر کام کرنے پر بھی مائل کیا جا سکتا ہے کہ جن سے معاشرے میں پھیلتی فحاشی ، بے راہ روی اور معاشرے پر غیر ملکی اثرات کے مسئلے کو اجاگر کیا جا سکے ۔ مثلًا اگر اخبار میں یہ اسٹوری چھپے گی کہ کہ انڈین فلموں کے باعث ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور نوجوان نسل تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ بظاہر یہ اسٹوری مذہبی نہیں لگتی لیکن اس سے مذہبی طبقے کو فائدہ ضرور پہنچے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس پر فکر مند ہوں اور حکومت ایکشن لے ۔ اسی طرح فیشن ، منشیات ، مذہب سے دوری کے باعث معاشرتی بگاڑ ، دینی روایات ، مختلف اسلامی ہستیوں کا تعارف اور ایسی ہی بہت سے موضوعات کو رپورٹرز کی مدد سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ معاشرتی برائیوں سے متعلق فیچرز میں دینی موقف آنے سے ایک اچھا تاثر جنم لیتا ہے۔
نمائندگان کا کردار :
دوسری جانب چھوٹے شہروں اور دور دراز علاقوں میں نمائندگان کی اہمیت تو بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ کسی علاقے کے حوالے سے یہ افراد مکمل طور پر با اختیار ہوتے ہیں۔اخبارات کے مرکزی دفاتر میں صرف ان کی ہی رسائی ہوتی ہے اور ان کی ہی بھیجی گئی رپورٹس ، خبروں اور تجزیے وغیرہ کو شائع کیا جاتا ہے ۔ اس لئے مختلف چھوٹے علاقے میں موجود اخبارات کے نمائندگان بھی کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے کارکنوں کی اخبارات کے نمائندے بننے کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ ان کے ذریعے ہی اپنے مطلب کے موضوعات اور مسائل کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے ۔ یہ افراد اپنے علاقے میں کافی زیادہ اثرورسوخ کے حامل بھی ہوتے ہیں ۔اخبارات کے رپورٹرز کی طرح یہ نمائندگان بھی اگر دینی ذہن کے حامل ہوں تو معاشرے کی اصلاح کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
بچوں کے رسائل:
ان سب کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے مخصوص رسائل اور اخبارات میں ان کے لئے مختص کردہ جگہ کو استعمال کرنا بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ سب سے پہلے تو ضروری یہ ہے کہ دینی جماعتیں اور مختلف دینی اخبارات اور رسائل کو چلانے والے افراد بچوں اور خواتین کے لئے پوری توجہ سے اچھا مواد سامنے لائیں ۔ جدید تقاضوں کے مطابق اور موجودہ انگلش میڈیم طبقے کے لئے ایسا مواد تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ بچے شروع سے ہی اسلام کی طرف مائل ہو سکیں۔ ان کو اسلام کی باتیں اس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچپن سے ہی انہیں اسلامی بنیادی معلومات حاصل ہو جائیں ۔ مغربی ممالک میں اس پر انتہائی زوروشور سے کام جاری ہے اور خاص کر بچوں کو اپنے نظریات کا پابند کرنے کے لئے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ناول ، اخبارات کے صفحات ، میگزین ، کتابیں غرض ہر طرح کے پرنٹ میڈیا کے ذریعے ایسا مواد فراہم کیا جاتا ہے کہ جو بچوں کے ذہنوں میں سیکولر ازم اور لادینیت کو پختہ کر دیں ۔ ایسی کہانیاں عام کی جاتی ہے جو کہ بظاہر تفریح کے نام پر ہوتی ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد بچوں کو مذہب سے دور کر نا ہوتا ہے ۔ ہیری پوٹر سیریز ، کارٹونز ، جن بھوتوں کی کہانیاں ، لطائف اور ایسی ہی بہت سی چیزیں بچوں کو مصروف رکھتی ہیں اور ان کے ذہن دین کی طرف مائل نہیں ہو پاتے ۔ معاشرے میں ان چیزوں کو ایک مستقل معیار کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہمارے ملک میں مشنری ادارے اور مغرب زدہ این جی اوز کے تحت چلنے والے ادارے بچوں کے ذہنوں کو دین سے دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ کچے ذہن کے بچے عیسائی یا ملحد بن جائیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتو کم سے کم اچھے مسلمان نہ رہیں ۔ ان کے نصاب تعلیم اور میڈیا میں آپ کو کارٹون ہیروز ، فلمی اداکار ، نت نئی گیمز کا تعارف اور ایسے ہی مغرب زدہ مواد کی تو بھرمار ملے گی لیکن اسلامی تاریخ اور روایات سے منسلک کوئی بھی کہانی اور مواد ہرگز نہیں مل پائے گا ۔ا سکولز کی لائبریریز میں موجود کتابوں اور بچوں کے حوالے سے ہر قسم کے مواد میں انہی نظریات کی ترویج ہوتی ہے ۔ بچوں کے حوالے سے خصوصی نظمیں تیار کی جاتی ہیں جبکہ اسکولز کے مختلف فنکشنز میں ان کو رقص وغیرہ کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے ۔ اس طرح یہ بچے اسلامی روایات سے زیادہ قریب نہیں رہتے اور آہستہ آہستہ دین سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔ بچوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا ایک چیلنج ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ پرنٹ میڈیا کے میدان میں بھی بچوں کی دلچسپی کا متبادل مواد فراہم کر دیا جائے ۔ یہ مواد سیکولر اور لادین طبقے کی جانب سے پھیلائے جانیوالے زہر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ نصاب تعلیم اور میڈیا کے لئے ایسی نظمیں اور اسلامی واقعات کو کچھ اس طرح پیش کیا جائے کہ جس میں نہ صرف بچے دلچسپی لیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں ۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں ، اسلامی واقعات ، بچوں سے متعلق اسلامی احکامات ، آداب اور بچوں کی تربیت سے متعلق زیادہ سے زیادہ تحریریں سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ دینی طبقے کو چاہیے کہ پرنٹ میڈیا کے بچوں سے متعلق حصوں کو محض گھسے پٹے مواد کی آماجگاہ نہ بنایا جائے بلکہ اس کے لئے بھرپور تیاری کے ساتھ مواد فراہم کیا جائے ۔ آسان فہم تحریریں سامنے لائی جائیں۔ اسلامی ہیروز اور دینی شخصیات کے بچپن کا تذکرہ ہو یعنی انہوں نے کس طرح مشکل حالات کا سامنا کیا اور ایک بڑا مقام حاصل کیا ۔ کہانی ، مکالمے اور دیگر قسم کے تحریری اسلوب استعمال کرکے بچوں کی دلچسپی کا مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ دینی حلقوں کی جانب سے اخبارات میں بچوں کے لئے مختص حصوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ بچوں کے صفحات میں تحریریں شائع کرانا انتہائی آسان بھی ہے اور ہر اچھی چیز ضرور شائع ہو جاتی ہے ۔ موجودہ دور میں بہت سے گھرانے بچوں کی تربیت کے حوالے سے انتہائی پریشانی کا شکار ہیں اور اگر اسلامی حلقے ان موضوعات پر مواد پیش کریں تو اس کو بے پناہ پذیرائی ملنے کا امکان ہے ۔
خواتین کے رسائل:
بچوں کی طرح خواتین بھی معاشرے کا اہم ترین حصہ ہوتی ہیں ۔ مغرب نے اسلامی ممالک میں خواتین کے حقوق اور اسلام کے احکامات کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ خود اسلامی ممالک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ بہت بڑا حلقہ واقعی مذہبی طبقے کو خواتین کے حقوق کا دشمن سمجھتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس تاثر کو بنانے میں جتنا بڑا کردار سیکولر اور مغرب نواز طبقے کا ہاتھ ہے شاید اس سے زیادہ قصور خود دینی طبقے کا بھی ہے ۔ کیونکہ بہت کم مذہبی جماعتوں اور حلقوں نے خواتین کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ہے ۔ اور یہی حال میڈیا کا بھی ہے ۔ مغربی پروپیگنڈے کے جواب میں علمائے کرام کی جانب سے خواتین کے حقوق کے موضوع پرکچھ کتابیں سامنے آئی ہیں لیکن ایک بار پھر میڈیا کے میدان پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کی کوریج کا نام ہے ، خالص علمی اور تحقیقی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کے ذریعے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جی ہاں مقابلہ تو وہیں ہو گا کہ جہاں پر حملہ کیا گیا ہے۔ اگر سیکولر اور مغرب نواز طبقے کی جانب سے خواتین سے بدسلوکی کا پروپیگنڈا میڈیا کے میدان میں کیا جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اسلام میں عورت کے مقام اور اسلامی نظام معاشرت میں اس کی حیثیت سے متعلق موقف میڈیا پر ہی پیش کیا جائے گا۔ یعنی میڈیا پر پیش کیے جانیوالے ایسے مواد کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ جس کے زریعے خواتین کو اسلامی روایات سے دور کیا جا رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا پر تواتر کے ساتھ خواتین کے حقوق کی آڑ میں سامنے آنیوالے زہریلے مواد کی وجہ سے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ قرآن کے ساتھ شادی ، گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے واقعات ، کاروکاری اور ایسے ہی بہت سے مواقع پر بلاوجہ مذہبی روایات کو حرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے اس سب بگاڑ کا موجب مذہبی احکامات ہی ہیں ۔ دینی طبقے کو چاہیے کہ ان مواقع پر پرنٹ میڈیا میں ہونیوالے پروپیگنڈے کا جواب دے ۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ خواتین سے متعلق موضوعات پر تحریریں لکھیں ۔ غیر ملکی کلچر کے فروغ، بہودہ فلمیں اور ڈرامے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں اور ان سے ہماری نسل کو کس تباہی کا سامنا ہے ۔ ان موضوعات پر لکھنا دینی طبقے کی ہی ذمہ داری ہے ۔ بے پردگی کے اثرات ، اور خود مغربی ممالک میں خواتین کی حالت زار کو بیان کرنا چاہیے ۔ علمائے کرام نے اس موضوع پر اچھی کتابیں لکھی ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان میں موجود مواد کو حالات حاضرہ سے منسلک کرکے میڈیا میں پھیلا دیا جائے۔ جیسے ہی کوئی واقعہ سامنے آئے مثلا گھریلو جھگڑے سے ہلاکت ، محبت میں ناکامی پر خودکشی ، گھر سے بھاگ کر شادی وغیرہ تو ان مواقع کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو عبرت دلانے کی کوشش کی جانی چاہیے جبکہ ساتھ ساتھ اس بارے میں اسلامی احکامات کا بھی تذکرہ ہو۔ پردے کے معاملے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد خواتین کو بیکار بنانا ہے ۔ علمائے کرام اور دینی طبقہ کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ دلائل اور حقائق سے یہ ثابت کریں کہ بے پردگی معاشرے میں کن مسائل کو جنم دے رہی ہے ۔ کس قسم کے جرائم کی بڑی وجہ بے پردگی اور خواتین شرعی تقاضوں کے بغیر گھر سے باہر نکلنا ہے ۔ مغربی ممالک میں اسلام قبول کرکے باپردہ اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والی خواتین کے انٹرویوز شائع کرائے جائیں۔ ان کے حالات زندگی پر تحریریں لکھی جائیں ۔ دین کی پابندی کرنیوالی باپردہ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ ان موضوعات پر قلم اٹھائیں اور اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام پر پابندی عورت کو بیکار بنا دیتی ہے ۔ ایسا تو شاید ممکن نہیں کہ ان کوششوں سے ہر خاتون ہی اسلامی احکامات کی پابند ہو جائے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کاوش کا انتہائی مثبت اثر ضرور ہو گا ۔ دین کی پاسداری کرنیوالی خواتین کے پاس دوسروں کو سمجھانے کے لئے دلائل میسر آئیں گے ۔ کیونکہ یہ سب تحریریں اخبارات اور جرائد کی زینت بنیں گی جو کہ بڑے پیمانے پر عوام تک رسائی رکھتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس سے راہ راست سے بھٹک جانیوالی بہت سی خواتین کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ حاصل کلام یہ کہ دینی طبقے کو اخبارات اور جرائد میں خواتین کے لئے مخصوص صفحات اور جگہ کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے ۔ اگر کچھ بویا جائے گا تو ہی کاٹنے کی امید کی جا سکتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں اس قدر کشش ہے کہ وہ خواتین کو اپنی جانب کھینچ سکتا ہے ۔ اگر اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر مغرب کے بہودہ ترین ماحول میں پلنے والی خواتین باپردہ اور شریعیت کی پابند بن سکتی ہیں تو اگر کوشش کی جائے تو ہمارے معاشرے میں بھی خواتین کے زریعے ایک اسلامی لہر برپا کی جا سکتی ہے۔
کہانی ، ناول اور افسانے :
ناول ،افسانوں ، کہانیوں اور فیچرز پر مشتمل کتابیں اور جرائد بھی پرنٹ میڈیا کی ہی ایک صورت ہیں ۔ ہمارے ملک میں نسیم حجازی کے ناولوں نے لاکھوں لوگوں کو اسلامی تاریخ سے روشناس کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ اگر دینی ذہن رکھنے والے کچھ اچھے لکھاری اس طرف بھی توجہ دیں تو اس کے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ واقعات سے متعلق کتابیں ہمیشہ ہی مقبول رہی ہیں ۔ اسلاف کے واقعات کو موضوعات کے لحاظ سے ترتیب دے کر کتابی شکل میں لانا چاہیے اور ایسے کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پروموٹ کیا جائے ۔ میری مراد تحقیقی اور علمی موضوعات پر لکھی جانیوالی کتابیں نہیں کیونکہ ان کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے بلکہ وہ کتابیں ہیں کہ جو معاشرتی موضوعات پر آسان فہم زبان میں لکھی گئی ہوں ۔ ان کا مخاطب ہر کوئی ہو اور ان کو پڑھنے والا مشکل محسوس نہ کرے ۔ اسی طرح معاشرتی مسائل اوردینی موضوعات کو ناول اور افسانے کاموضوع بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف یہ ہونا چاہیے کہ لادینیت سے معاشر ے میں ہونیوالے بگاڑ کو واضح کیا جائے اور تمام کہانیوں اور افسانوں کا مرکزی خیال لوگوں کو اسلام کی طرف لانا ہی ہو ۔ اس طرح منظر کشی کی جائے کہ قارئین ان تحریروں کو اپنی ہی کہانیاں سمجھیں اور زندگی میں اسلامی طرز زندگی کو اپنانے پر قائل ہو جائیں ۔ اسلام قبول کرنیوالوں اور عیاشی و بے راہ روی سے تائب ہو کر دین کے پیروکار بن جانیوالوں کی کہانیوں کو پراثر انداز میں لکھا جائے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے کہ دین پر عمل کرنے کا مطلب خود کو معاشرے سے الگ کرنا ہے ۔ ان تحریروں ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے کہ جو اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی کامیاب بھی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی زمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں ۔ اس کے لئے جہاں مناسب ہو افسانے ، ناول یا فیچرز کا اسلوب استعمال کیا جائے ۔ اس قسم کا مواد نوجوان نسل اور بہت سے علمی اور ادبی حلقوں کو متاثر کرتا ہے اور اس کے انتہائی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
کمپوز شدہ مواد :
پرنٹ میڈیا میں اچھی کوریج کے لئے ایک انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی اخبار یا رسالے کو مواد کمپوٹر پر کمپوز کرکے فراہم کیا جائے ۔ اس طرح آپ کی تحریر چھپنے کے امکانات میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ تحریر کو کمپوز کرنے سے اس کو وسیع تر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا اس کو مختلف ویب سائٹس پر بھی بھیجا جا سکتا ہے ۔ اس کو ایک تصویر کے روپ میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بھی شئیر کیا جا سکتا ہے ۔ اخبارات اور جرائد کے ایڈیٹرز کمپوزنگ کے بغیر مواد پر کم توجہ دیتے ہیں اس لئے ضروری ہے مواد کو کمپوز کر لیا جائے۔ اس طرح یہ آپ کے پاس محفوظ بھی ہو جائے گا اور مستقبل میں بھی کام آ سکے گا ۔
مختصر اور جامع تحریر:
پرنٹ میڈیا کے حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مواد مختصر اور جامع ہو ۔ زیادہ لمبی تحریریں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں ۔ قسط وار مضامین کی اشاعت پسند نہیں کی جاتی جبکہ زیادہ بڑے مضمون کی کانٹ چھانٹ کی مصیبت اکثر ایڈیٹر کو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے ۔ موجودہ دور مختصر ترین لکھنے کا دور ہے کیونکہ ہر کوئی ٹائم کی کمی کا شکار ہے ۔ چھوٹی اور جامع تحریر زیادہ توجہ حاصل کر لیتی ہے ۔ مختصر تحریر کو انٹرنیٹ پر شئیر کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے ۔ مختصر نگاری کو مستقل اصول تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بعض موضوع تفصیل طلب ہوتے ہیں لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تحریر مختصر ہی ہو۔
حاصل کلام :
دینی طبقے کو چاہیے کہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر اسے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے ۔ اس کے لئے پیشہ ورانہ اصول و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے انتہائی پرکشش انداز میں تحریریں سامنے لائی جائیں ۔ دینی حلقے اپنے زیر اہتمام ہونیوالی صحافت اور دیگر اخبارات و جرائد کے لئے باقاعدگی سے مواد فراہم کرنے کی کوشش کریں اور ذرائع ابلاغ کی اس قسم کو بھرپور انداز میں دعوت دین کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیونکہ پرنٹ میڈیا ہی ذرائع ابلاغ کی ایک قسم ہے کہ
جس تک ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتوں ، علمائے کرام اور دینی شعور رکھنے والے افراد کو سب سے زیادہ رسائی حاصل ہے ۔اس لئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انشااللہ خلوص نیت سے کی گئی کوششیں ضرور رنگ لاتی ہیں۔


تخلیقی انداز سے کیسے سوچا جائے؟ 

’’بڑی سوچ کے کرشمے‘‘سے کارآمد اور دلچسپ باتیں 

زندگی میں کامیابی کے لیے تخلیقی سوچ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم بھی تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے اپنی تخلیقی صلاحیت بہتر بنا سکتے ہیں۔ بہتر تخلیقی صلاحیت ہمارے کام یا کاروبار ، ہمارے تعلقات اور ہماری گھریلو زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لے کر آتی ہے ۔ ہم اپنی تخلیقی صلاحیت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں، اس سلسلے میں جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی اٹلانٹا کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ جے شواٹز (David J. Schwartz) کی مقبول کتاب’’ بڑی سوچ کے کرشمے‘‘ (The Magic of Thinking Big) ہماری بھرپور راہ نمائی کرتی ہے۔ زیرِنظر مضمون میں اسی کتاب میں تخلیقی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے دی گئی رہنمائی اور تجاویز کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔٭٭تخلیقی سوچ کے متعلق اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسے سائنس ،انجینئرنگ ،آرٹ اور لکھنے کے شعبوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔اس کا تعلق بجلی کی ایجاد یا پولیو ویکسین کی دریافت سے جوڑا جاتا ہے یا پھر اسے ناول نگاری اور رنگین ٹی وی کی ایجاد سے منسلک کیا جاتا ہے۔ 


بلاشبہ یہ تمام کامیابیاں تخلیقی سوچ کا اظہار ہیں۔ لیکن تخلیقی سوچ کا تعلق چند مخصوص شعبوں تک محدود نہیں اور نہ ہی بہت زیادہ ذہین لوگوں کی اس پہ اجارہ داری ہے ۔ کم آمدنی والے خاندان کا اپنے بچے کو اچھی یونیورسٹی میں پڑھانے کی منصوبہ بندی کرنا ، محلے یا علاقے کی بد نما جگہ کو خوبصورت جگہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا، کسی مشکل گاہک کو کوئی چیز خریدنے کے لیے آمادہ کرنا، بچوں کو فارغ وقت میں تعمیری انداز میں مصروف رکھنا ، ملازموں کے لیے ان کے کام کو دلچسپ بنانا یا کسی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کرنا…یہ سب روزمرّہ زندگی میں تخلیقی سوچ کی مثالیں ہیں۔تخلیقی سوچ کا مطلب ہے کسی کام کو کرنے کا نیا اور بہتر طریقہ تلاش کرنا۔ گھر ہو یا باہر کی کوئی ذمے داری، کامیابی صرف اس وقت ملتی ہے جب کام کو بہتر انداز میں کیا جائے۔آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔پہلا قدمکوئی کام کرنے کے لیے سب سے بنیادی قدم یہ ہے کہ اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ یہ کام کیا جا سکتا ہے یا یہ کام میں کر سکتا ہوں۔



جب ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ یہ کام کیا جا سکتا ہے تو ہمارا ذہن یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ تخلیقی سوچ کے اس نکتے کی وضاحت ایک مثال سے کی جا سکتی ہے جو میں تربیتی پروگرام میں اکثر استعمال کرتا ہوں۔ اس میں حاضرین سے پوچھا جاتا ہے کہ کتنے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگلے ۳۰؍سالوں میں جیلوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔حاضرین یہ سن کر حیران ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان سے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔لیکن جب میں اپنا سوال دہراتا ہوں تو ان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ میں مذاق نہیں کر رہا۔ان میں سے ایک کہے گا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں تمام قاتل ، چوراور بدکار آزاد ہو جائیں؟ ایسا کرنے سے ہم سب غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ ہم جیلوں کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟ایک دوسرا شخص اٹھے گا اور کہے گا کہ اگر جیلیں نہیں ہوں گی تو تمام معاشرے کا نظم تباہ ہو جائے گا، کچھ لوگ پیدایشی مجرم ہوتے ہیں۔ ہمیں مزید جیلوں کی ضرورت ہے۔ کیا آپ نے آج کے اخبار میں ایک قاتل کے بارے میں خبر نہیں پڑھی۔لوگ اس طرح کی وجوہ پیش کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں جیلوں کی کیوں ضرورت ہے۔ایک شخص یہ رائے بھی دے گا کہ ہمیں پولیس کی ملازمتوں کی لیے جیلوں کی ضرورت ہے ۔دس منٹ بولنے کی اجازت دینے کے بعد میں ان پہ واضح کرتا ہوں کہ آپ سے جیلوں کے خاتمے کے بارے میں سوچنے کے لیے کہنادراصل ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش ہے۔



آپ میں سے ہر ایک وجوہ پیش کر رہا ہے کہ جیلوں کو کیوں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ اس بات کا یقین پیدا کریں کہ جیلوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ لوگ آہستہ آہستہ تجاویز پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں:’’ہم نوجوانوں کی تربیت کے مراکز قائم کر کے جرائم کم کر سکتے ہیں۔ ‘‘دس منٹ پہلے جو لوگ اس آئیڈیا کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔اب اس بارے میں سوچنے لگتے ہیں کہ جیلوں کو ختم کرنا ممکن ہے۔’’اس کے لیے غربت کو کم کرنا ہو گا کیونکہ زیادہ ترجرائم غربت سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘’’جو لوگ جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں یعنی امکانی مجرم ہیں، تحقیق کے ذریعے ان کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ‘‘’’ قانون نافذ کرنے والے لوگوں کومثبت اصلاح کے طریقوں کی تعلیم دینا فائدہ مند ہو گا۔‘‘یہ ان بہت سے خیالات میں سے چند ہیںجو اس بارے میں لوگ پیش کرتے ہیں کہ جیلوں کے خاتمے کا ہدف کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مثال سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ یقین پیدا کر لیں کہ اسے کیا جا سکتا ہے تو آپ کا ذہن ان طریقوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ جن سے یہ کام کرنا ممکن ہوگااور جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ یہ نہیں کیا جا سکتا تو آپ کا ذہن وجوہ پیش کرنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا جا سکتا۔کسی کام کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ ممکن ہے، تخلیقی حل کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔کسی کام کے بارے میں یہ سوچنا کہ اسے کرنا ممکن نہیں، منفی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نکتے کا اطلاق ہر طرح کی صورتِ حال پہ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی راہنما جو دل کی گہرائی سے یہ سمجھتے ہیں کہ پائیدار عالمی امن کا حصول ممکن نہیں، ان کے ذہن میں وہ طریقے نہیں آئیں گے جن سے دنیا کا امن حاصل کیا جا سکے۔ آپ اپنی زندگی کے ذاتی مسائل کا حل بھی اسی وقت تلاش کر سکتے ہیں جب آپ یہ یقین پیدا کر لیں کہ ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔یقین تخلیقی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔جب آپ اپنے ذہن کو موقع دیتے ہیں تو وہ خود نئے راستے ڈھونڈلیتا ہے۔



دو سال پہلے ایک نوجوان نے مجھ سے مشورہ مانگا کہ وہ ایسی ملازمت کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ترقی کے امکانات ہوں، وہ نوجوان کسی کمپنی میں کلرک تھا۔ میں نے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہاری آگے بڑھے کی خواہش قابل تعریف ہے لیکن تمہیں آگے بڑھنے کے لیے کالج کی ڈگری کی ضرورت ہو گی۔ نوجوان نے میری بات سے اتفاق کیا لیکن اس نے کہا کہ میرے لیے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا ممکن نہیں۔ میری عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے، میری گھریلو ذمے داریاں بھی زیادہ ہیں، میرے لیے اپنی موجودہ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں۔میں نے اسے کہا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ کالج کی تعلیم دوبارہ شروع کرنا ممکن نہیں تو واقعی یہ تمہارے لیے نا ممکن بن جائے گا لیکن اگر تم تعلیم شروع کرنے کا ارادہ کرلو تو کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ نوجوان نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسے ایک ادارے کی طرف سے تعلیمی سکالرشپ مل گیا ۔اس نے اپنے کام کو ایسے ترتیب دی کہ اسے اپنی کلاسوں کے لیے وقت بھی ملنے لگا۔ اسے اپنی بیوی کی مکمل مدد بھی حاصل ہوئی۔ ان دونوں نے اپنے پیسے اور وقت کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا سیکھا۔ وہ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیااور اس نے ایک بڑے ادارے میں مینجمنٹ ٹرینی کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔تخلیقی سوچ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی کام کے بارے میں اپنی ذات میں یہ یقین پیدا کرلیا جائے کہ اسے کرنا ممکن ہے۔ یقین کے ذریعے تخلیقی قوت کی نشوونما کے لیے ان باتوں کا خیال رکھیے:۱۔ اپنی سوچ اور گفتگو سے نا ممکن کا لفظ نکال دیجئے، یہ ناکامی کا لفظ ہے۔ کسی کام کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ نا ممکن ہے، اس سے ذہن میں ان خیالات کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے جو آپ سے کہتے ہیں کہ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں۔۲۔کسی ایسے کام کے متعلق سوچیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ وہ کام نہیں کر سکتے۔ اُن وجوہ کی ایک فہرست بنائیںجو اس بات پر مبنی ہو کہ آپ اس کام کو کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی خواہشات کو مکمل کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اس کام کو کرنا فلاں فلاں وجہ کے باعث ممکن نہیں۔روایتی انداز میں سوچنے والے کا ذہن مفلوج ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ سو سال سے یہ کام اس طریقے سے ہو رہا ہے، اس لیے یہی طریقہ بہتر ہے اور اسے اسی طریقے سے کرنا چاہیے۔ تبدیلی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔اوسط درجے کا ذہن ہمیشہ ترقی کی مخالفت کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے کاروں کی مخالفت میں یہ دلیل دی کہ فطرت یہ چاہتی ہے کہ ہم پیدل چلیں یا گھوڑے استعمال کریں۔ بعض لوگوں نے جہازوں کی مخالفت میںیہ دلیل پیش کی کہ ہمیں پرندوں کے علاقے میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلاء میں انسان کا کیا کام ہے؟ ایک دانا شخص نے اس کا بڑا خوبصورت جواب دیاکہ آدمی کا تعلق ہر اس مقام سے ہے جہاں جانے کا وہ آرزو مند ہو سکتا ہے۔کسی کام کو بہتر انداز میں کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ جتنے تخلیقی ذہن موجود ہوں اتنے ہی طریقے موجود ہوں گے۔کسی گھر کو سجانے ، لان کو ترتیب دینے ، بچے کی تربیت، کوئی خاص کھانا بنانے کا صرف ایک بہتر طریقہ نہیں ہوتا بلکہ جتنے تخلیقی ذہن ہوں گے ان کاموں کو کرنے کے اتنے ہی بہتر طریقے ہوں گے۔ 



روایتی سوچ ذہن کو منجمد کر دیتی ہے اور اس میں نئے خیالات کو داخل ہونے سے روک دیتی ہے ۔ کچھ لوگوں کے سامنے نئے خیالات پیش کیجئے اور ان کا ردِعمل نوٹ کیجیے مثلاً نیا خیال یہ ہو سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر ۷۰؍ سال کر دینی چاہیے یا انتخابات ۲ یا۶؍سال بعد منعقد ہونے چاہئیں۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہ خیالات عملی لحاظ سے کتنے بہتر ہیں، بلکہ یہ ہے کہ لوگ نئے خیالات کو کیسے دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ ان خیالات کو سن کر مسکرانے اور انہیں غیر سنجیدہ سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ روایتی سوچ کے روگ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ان خیالات کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ وہ تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ جو شخص ترقی کرنا چاہتا ہو وہ روایتی سوچ سے دور رہتا ہے۔ اِس سوچ سے چھٹکارا پانے کے لیے ان باتوں کا خیال رکھیئے:۱۔ نئے خیالات کو خوش آمدید کہنا سیکھئے۔ ’’یہ کام نہیں ہو سکتا‘‘ ۔’’ ایسا ہونا ممکن نہیں‘‘ ۔ ’’یہ احمقانہ خیال ہے‘‘۔ ان جملوں سے نجات حاصل کیجیے۔۲۔ تجرباتی شخص بنیئے۔ لگے بندھے معمولات سے نجات، نئے ریستوران، نئی کتابوں ، نئے دوستوں کے لیے جگہ پیدا کیجیے۔ کسی دن اپنے کام پر جانے کے لیے مختلف راستہ اختیار کیجیے۔ اپنے مخصوص شعبے کے علاوہ دوسروں شعبوں میں بھی دلچسپی لیں۔ یہ چیز آپ کو نئی ذمے داریوں کے لیے تیار کرے گی۔۳۔ ترقی پسند بنیے۔ یہ سوچنے کے بجائے کہ میں پہلے جس جگہ تھا، وہاں یہ کام ہم ایسے کرتے تھے ،اس لیے یہاں بھی ایسے ہی کام کرنا چاہیے۔ یہ سوچیے کہ ہم اس کام کو پہلے سے بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔یہ مت سوچیں کہ ہم اس طرح کام کرتے تھے اس لیے بچوں کو بھی اسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ذرا خیال کیجیے کہ اگر دنیا کی بہترین موٹر کمپنی فورڈ کی مینجمنٹ یہ سوچنا شروع کر دے کہ ہم نے کار بنانے کا حتمی معیار حاصل کر لیا ہے اور اس میں مزید بہتری ممکن نہیں تو اس رویہ سے کمپنی چند دنوں میں زوال کا شکار ہو جائے گی۔انسانی کاموں میں کاملیت (Perfection)کا حصول ممکن نہیں ۔ یہ کام چاہے میزائل بنانے سے متعلق ہو یا بچوں کی تربیت سے متعلق، ان میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ کامیاب لوگ اس نکتے کو سمجھتے ہیں اور وہ ہمیشہ بہتر طریقے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔اعلیٰ کامیابی ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اپنے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار مقرر کرتے رہتے ہیں۔ وہ کم قیمت میں زیادہ بہتر نتائج اور کم کوشش سے زیادہ بہتر کارکردگی حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کا سلوگن ہے کہ ترقی ہماری سب سے اہم پراڈکٹ ہے۔ آپ بھی ایسا رویہ اپنا سکتے ہیں ۔ ہر روز اپنا کام شروع کرنے سے پہلے دس منٹ اس خیال کو دیجیے کہ میں یہ کام کیسے بہتر انداز میں کر سکتا ہوں۔ میں اپنے ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ میں اپنے گاہکوں کو کیا خاص فائدہ دے سکتا ہوں۔ یہ سادہ سی مشق ہے لیکن اس سے آپ کامیابی کے لیے بے شمار تخلیقی طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ہم اپنے کام کرنے کی استطاعت کے بارے میں بھی اکثر غلط اندازہ لگاتے ہیں۔ ایک خاتون شادی سے پہلے ملازمت کرتی تھی۔ اب اس کا خیال تھا کہ گھر کی ذمے داریوں کی وجہ سے ملازمت کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں۔ ایک کار حادثے میں اس کا شوہر معذور ہو گیا۔اب اس خاتون کے لیے ملازمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس حادثے کے کچھ عرصہ بعد ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ خاتون گھر کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت بھی بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس خاتون نے بتایاکہ کچھ ماہ پہلے تک وہ ملازمت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر اس حادثے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے ملازمت کے لیے وقت نکالنا ہو گا۔پھر اس نے کئی غیر ضروری چیزوں کو ترک کیا ۔ وقت بچانے کے کئی طریقے ڈھونڈے، بچوں نے بھی اس کے ساتھ تعاون کیا۔ 



یہ مثال بتاتی ہے کہ استطاعت ذہنی رویے کا نام ہے۔ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے بارے میں کیا اندازہ لگاتے ہیں۔کام کرنے کی استطاعت کے بارے میں ایک بنک ملازم نے اپنا تجربہ یوں بیان کیا۔ہمارے بنک کے ایک ملازم نے نہایت مختصر نوٹس پہ ملازمت چھوڑ دی۔ میرے شعبے کے انچارج نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا میں عارضی طور پہ جانے والے شخص کا کام سنبھال سکتا ہوں؟ انچارج نے مجھے یہ بھی بتایاکہ اس نے دو اور لوگوں سے اس بارے میں بات کی ہے۔ انھوں نے صاف انکار تو نہیں کیا مگر یہ ضرور کہا کہ ان پر پہلے ہی کام کا دبائو بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنے کیرئیر میں یہ بات سیکھی ہے کہ اس طرح کے مواقع سے انکار دانشمندانہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے میں نے یہ ذمے داری اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں بھی اتنا ہی مصروف تھا جتنا وہ دو لوگ جنھوں نے زائد کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں دونوں کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ لوں گا۔میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اپنی کارکردگی کو کیسے بہتر بنائوں۔ میں نے اپنے ماتحت کے ساتھ مل کر اپنے وقت کا مؤثر انداز میں استعمال شروع کر دیا۔ میں اپنی موجودہ نوکری دو سال سے کر رہا تھا لیکن اب مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی استطاعت سے کم کارکردگی دکھا رہا تھا۔چند ہفتوں کے اندر اندر میں اپنی دونوں ذمے داریاں بہتر انداز میں سرانجام دینے کے قابل ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میرے انچارج نے مجھے بلایااور بتایا کہ انہوں نے دونوں کاموں کی ذمے داری مستقل طور پر مجھے دینے کا فیصلہ اور میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ یوں میں نے اپنے آپ یہ ثابت کر دیا کہ میں کیا کیا کام کر سکتا ہوں۔ اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ میں اپنی اہلیت کا کیا اندازہ لگاتا ہوں۔کچھ زیادہ کرنے کا موقع ملے توکھلے دل سے قبول کیجئے۔ کچھ زیادہ کرنے کی ذمے داری قبول کرنا آپ کو دوسروں سے نمایاں کرتا ہے۔جب آپ اس بات پہ توجہ دیتے ہیں کہ میں زیادہ کام کر سکتا ہوںتو تخلیقی حل آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔میں نے اپنے مشاہدے سے یہ بات بھی سیکھی ہے کہ کامیاب لوگ بولنے کے بجائے زیادہ سننے کے قائل ہوتے ہیں۔وہ اپنے کام کے بارے میں دوسروں سے رائے لیتے رہتے ہیں۔جب کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ بہتر فیصلے کرنے کے لیے دوسروں کے خیالات اور مشوروں سے فائدہ اٹھائیے، اس سے آپ کا ذہن زیادہ تخلیقی بنتا ہے۔ ایک سیمینار میں ایک ایگزیکٹو کو۱۵؍منٹ کے لیے اس موضوع پہ بات کرنے کی دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اہم مینجمنٹ کے مسائل کیسے حل کرتے ہیں ۔ مقرر نے حاضرین کے تجربات اور خیالات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ بتانے کے بجائے کہ وہ اپنے مسائل کیسے حل کرتا ہے، حاضرین کے سامنے اپنے مسائل رکھے اور ان سے حل کے لیے رائے طلب کرنا شروع کردی۔تقریر کے اختتام پہ میں نے اس کے منفرد انداز کی تعریف کی تو اس نے بتایا کہ اسے یقین تھا کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اسے اس گروپ سے اچھے مشورے مل سکتے ہیں۔کامیاب کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کے بارے میں صارفین کی رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صارفین کی رائے اور خیالات سننا مصنوعات کو زیادہ قابل فروخت بنانے میں مدددیتا ہے۔ نجی ملاقات ہو یا کوئی دفتری میٹنگ، لوگوں کو بولنے کا موقع دیجیے۔ لوگوں سے ان کے تجربات سنیں۔اس سے آپ کو نئے دوست بنانے کا موقع ملتا ہے لوگوں کی بات توجہ سے سنیں۔ سننے کا مطلب صرف خاموش رہنا نہیںبلکہ دوسروں کی بات کو اپنے ذہن تک پہنچنے کا موقع دیں۔ اکثر اوقات لوگ سننے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ صرف اپنے بولنے کی باری کا انتظار کر رہے ہو تے ہیں۔اپنے پیشے کے علاوہ دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد سے ملنے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیے۔ ان کے خیالات سنیں۔ اس سے ذہن کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 




ایک نوجوان اکائونٹنٹ نے اس حوالے سے اپنی کامیابی کا ذکر یوں کیا:میری رئیل اسٹیٹ میں دلچسپی واجبی سی تھی ۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے اکائونٹنٹ تھا۔ ایک مرتبہ میرے دوست نے مجھے ایک لنچ میں شرکت کی دعوت دی جس میں رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد شریک تھے۔ وہاں ایک بڑی عمر کے مقرر ، جس نے شہر کو اپنی آنکھوں سے وسیع ہوتے دیکھا تھا، خطاب کیا۔ اس نے بتایا کہ مستقبل میں شہر کے باہر ایسے چھوٹے فارمز کی طلب میں ریکارڈ اضافہ ہو گاجہاں لوگوں کو تالاب ، باغ اور دوسرے مشاغل کے لیے جگہ دستیاب ہو سکے۔ میں نے اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شہر سے باہر زمین خریدی اور فارمز کے لیے پلاٹ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میں نے صرف چھ ہفتوں کے اندر بہت کم وقت صرف کر کے۱۰؍پلاٹ فروخت کر دیئے۔ یہ منصوبہ میرے لیے بڑا منافع بخش ثابت ہوا۔شاہ بلوط کا درخت ہر سال اتنے زیادہ پھل (Acorns) پیدا کرتا ہے کہ جس سے ایک جنگل آباد ہو سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے صرف تھوڑے درخت بن پاتے ہیں۔ بہت سارے پھلوں کو گلہریاں تباہ کر دیتی ہیں۔اسی طرح درخت کے نیچے کی سخت زمین بہت سے پھلوں کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ یہی عمل خیالات کے ساتھ ہوتا ہے، اگر ان پہ توجہ نہ دی جائے تو یہ جلد ختم ہو جاتے ہیں۔ انہیں گلہریاں یعنی منفی لوگ تباہ کر دیتے ہیں۔ ان خیالات کو عملی شکل تک پہنچانے کے لیے خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔۱۔ خیالات کو لکھ لیں۔ اگر انہیں کاغذ پہ منتقل نہ کیا جائے تو یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف اپنی یادداشت پہ بھروسا نہ کیجیے بلکہ اپنے پاس نوٹ بک رکھنے کی عادت اختیار کیجیے۔ جب بھی اچھا خیال ذہن میں آئے، اسے لکھ لیں۔ جو لوگ تخلیقی سوچ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اچھا خیال کسی جگہ کسی وقت بھی ذہن میں آسکتا ہے۔۲۔ خیالات کا وقتاً فوقتاً تجزیہ کرتے رہیں۔۳۔ خیالات کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں۔ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور مناسب وقت پہ انہیں عملی شکل دیں۔ ایک ماہر تعمیرات کے ذہن میں جیسے ہی کسی نئی بلڈنگ کا نقشہ آتا ہے تو وہ اس کی ابتدائی ڈرائنگ بنا لیتا ہے۔ اسی طرح ایک لکھنے والے کے ذہن میں جب کوئی آئیڈیا آتا ہے، وہ اس کو پہلے ڈرافٹ کی شکل دے دیتا ہے۔ ایک آئیڈیا یا خیال کو لکھ لینے سے اس کا بہتر تجزیہ ممکن ہو جاتا ہے ۔تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے لیےیہ باتیں ذہن میں رکھیے۱۔ جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ یقین پیدا کر لیتے ہیں کہ اسے کرنا ممکن ہے توآپ کا ذہن ان طریقوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے جن سے اس کام کو کیا جا سکے۔۲۔ روایتی سوچ سے اپنے ذہن کو مفلوج نہ بنایئے۔ نئے خیالات کے لیے ذہن کو کھلا رکھیں، تجربات کیجیے اور ترقی پسند سوچ اپنایئے۔۳۔ اپنے آپ سے روزانہ یہ سوال کیجیے کہ آپ اپنے کام کو کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس مشق سے آپ کو بہتر جواب ملیں گے۔۴۔ اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے کہ آپ اپنی استطاعت کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ استطاعت ذہنی رویے کانام ہے ۔۵۔ دوسرے لوگوں کو سننے کی عادت اپنائیں۔اس سے بہتر خیالات ملنے کا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔۶۔ اپنے ذہن کو وسعت دیں ان لوگوں سے ملیں جو آپ کو نئے خیالات سوچنے میں مدد دے سکتے ہیں
.....................

سیکولرازم،لبرل ازم اور اسلام

محمدفاروق ناطق

 اسلام اور اہلِ اسلام تقریباً 70 برس تک (1917ء میں روس میں بالشویک انقلاب سے 1988ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک) کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ان نظریات کے ساتھ اہلِ اسلام نے اپنی جنگ، ذہن کی دُنیا سے نکل کر ذرائع ابلاغ، معیشت، معاشرت، سیاست یہاں تک کہ جنگی میدانوں میں بھی لڑی۔اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کو شکست اس لیے ہوئی کہ ان کا غیر فطری اور انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کے خلاف ہونا اہلِ اسلام نے بہت پُر زور دلائل کے ساتھ دُنیا کے تمام اہلِ علم و دانش اور عوام الناس پر ثابت کیا تھا (امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تھی ۔چونکہ ان ممالک میں برسرِ اقتدار طبقات خود بھی لادین اور سرمایہ پرست ہیں، لہٰذا کمیونزم اور سوشلزم کا لادین ہونا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا)۔مذکورہ دونوں نظریات اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریات نہیں ہیں بلکہ لبرلزم اور سیکولرزم کے محض فروع ہیں۔
 
کمیونزم اور سوشلزم کا خالق کارل مارکس: ’’ایک غیر مذہبی شخص تھا جس کا باپ ہنرچ خاندانی طور پر ایک یہودی، ایک جرمن شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اورفکری طور پر یورپ میں برپا (خدا بے زاری پر مبنی) تحریکِ احیاے علوم کے سرخیل فلسفیوں والٹئیراور کانٹ سے متاثر تھا۔کارل مارکس کے باپ نے یہودی ربیوں کے سلسلۂ نسب سے منسلک ہونے کے باوجود غالباً اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت ایوینجلیکل عیسائیت میں بپتسمہ لیا اور چھے برس کی عمر میں کارل مارکس کو بھی بپتسمہ دے دیا مگر اپنی عملی زندگی میں وہ ایک سیکولر، یعنی لادین شخص تھا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کی شکل میں طبقاتی کش مکش کا علَم بردار ہونے کا پس منظر( یورپ میں ظالمانہ جاگیرداری نظام کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ۔مضمون نگار) شاید یہ تھا کہ اس کی قوم یہود کے ساتھ یورپ کے تنگ نظر عیسائی مذہبی لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کے دوران بہت برا سلوک کیا تھا۔عیسائی اہلِ مذہب کے امتیازی سلوک نے اسے نفسِ مذہب ہی سے بے زار کردیا اور وہ بہت جلد مشہور خدا فراموش جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کا خوشہ چین بن گیا‘‘۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)
 
اسلام چونکہ ایک دین (بمعنی مکمّل نظامِ زندگی) ہونے اور انسانوں کے تمام دُنیاوی اُمور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علَم بردار ہے ،اور لبرلزم اور سیکولرزم کی تو بنا ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے، اس لیے اسلام کے اصل دُشمن لبرلزم اور سیکولرزم ہیں ۔ مغربی ممالک چونکہ رسمی طور پر عیسائی اور خدا کے قائل ہیں، اس لیے ان ممالک میں حکومت ، معاشرت اور معیشت کی سطح پر لبرلزم اور سیکولرزم کے غلبے کو اہلِ اسلام نے عام طور پر کمیونزم اور سوشلزم کی طرح کا فوری خطرہ نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک کا سیکولرزم ، کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد اب خم ٹھونک کر اسلام کے مدمقابل آ گیا ہے۔مغرب کاسیکولر دانش ور طبقہ اور وہاں کے ذرائع ابلاغ حکومتی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ دینِ اسلام کے خلاف فکری لڑائی میں مشغول ہیں اور وہاں کی حکومتیں پوری فوجی قوت کے ساتھ اہلِ اسلام پر حملہ آور ہیں۔
 
اس جنگ میں مسلمان ممالک کے سیکولر حکمران بیش ترسیاست دان اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلۂ کاربنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت لبرلزم اور سیکولرزم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے۔ لبرلزم اور سیکولرزم کے وہ علَم بردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو ایک دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ خدا، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ سیاسی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیکولرزم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمران یا دانش ور مسلمانوں کے عقائد ،مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکّے مسلمان ہونے کا تأثّر دیتے ہیں اور مسلمان عوام اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔آئیے دیکھیں کہ سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوے دار مغربی دا نش وروں کے نزدیک سیکولرزم اور لبرلزم کا مفہوم کیا ہے کیونکہ ان اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر ہوسکتا ہے جو ان اصطلاحات کے خالق اور قائل بیان کریں۔
 
لبرلزم
 
لفظ ’لبرل‘، قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ ، (liber ) اور پھر ’لائبرالس‘ (liberalis) سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، اور لبرلزم سے مُراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔
 
یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (Renaissance یعنی re-birth)کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔برطانوی فلسفی جان لاک (1620ء ۔ 1704ء) پہلا شخص ہے جس نے لبرلزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (1694ء ۔ 1778ء) اور روسو (1712ء ۔ 1778ء) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انھی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اُمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔امریکا کے اعلانِ آزادی (AmericanDeclaration of Independence) میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری)
 
سیکولرزم
 
یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’سیکولارس‘ (saecularis) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’وقت کے اندر محدود‘۔ عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ما ورا ہے۔تحریک احیاے علوم کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بے زاری پیدا ہوئی اور خدا کے انسانی زندگی میں دخل(جو کہ اصل میں عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کی خدا کی طرف سے انسانی زندگی میں مداخلت کی غیر ضروری ، غیر منطقی، من مانی اور متشدّدانہ توجیہ تھی ورنہ اگر عیسائیت کی تعلیمات وہی ہوتیں، جو عیسیٰ  نے دی تھیں تو خدا کے خلاف بغاوت پیدا نہ ہوتی ) کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقیّد ہے لہٰذا انسانی زندگی کو سیکولر، یعنی خدا سے جدا (محدود) ہونا چاہیے۔ ’’اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1846ء میں متعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف جارج جیکب ہولیوک (1817ء ۔ 1906ء) تھا۔ اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھے ماہ کی سزا بھگتنا پڑی ۔جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کے لیے اپنا انداز تبدیل کر لیا اور جارحانہ انداز کے بجاے نسبتاً نرم لفظ ’سیکولرزم‘ کا پرچار شروع کر دیا‘‘۔(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا)
 
اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دُنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے کہ ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلوپیڈیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی پر سیکولر کہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔’لبرلزم‘ کے مقابلے میں ’سیکولرزم‘ نسبتاً نرم اصطلاح ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق:
 
یورپ کے ازمنۂ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں میں یہ رجحان جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ انسانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق دُنیاوی اُمور کو نظر انداز کرتے تھے اور لوگوں کو خدا سے تعلق جوڑنے کی اور ترکِ دُنیا کی تعلیم دیتے تھے۔اس رجحان کے خلاف رَدعمل پیدا ہوا اور یورپ کی تحریکِ احیاے علوم کے دوران میں سیکولرزم نمایاں ہوا اور لوگوں نے تمدّنی ترقی میں زیادہ دل چسپی لینی شروع کی۔ اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اول یہ کہ’’سیکولرزم سے مُراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور سے حذف کر دیا جائے۔اس کی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلّی طور پر بنی نوعِ انسان کی دُنیا میں فلاح و بہبود اور خدا اور حیات بعد الموت پر ایمان سے انکار (یعنی ان کے عقائد سے اخراج) پر رکھی گئی ہے‘‘۔دوم یہ کہ ’’اس بارے میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمایے سے دی جا رہی ہو ، مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے‘‘۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق سیکولرزم کے معنی ہیں: دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا اخراج یا بے دخلی۔
 
سیکولرزم اور لبرلزم کا پس منظر
 
مندرجہ بالا دو اصطلاحات کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اُس ماحول اور اُن حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یہ اصطلاحات تشکیل پائیں۔ حضرت عیسٰی کی پیدایش کے وقت مغربی اور مشرقی یورپ پربُت پرست (مشرک) رومن بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔ حضرت عیسٰی آسمان کی طرف اُٹھائے جانے سے قبل دنیا میں 30 یا 33 برس رہے۔وہ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے تاکہ ان کو تورات کی گمشدہ تعلیمات سے از سرِنو آشنا کریں۔ان کی اصل تعلیمات اِس وقت تقریباً ناپید ہیں۔موجودہ عیسائیت اور اس کے عقائدسینٹ پال کی دین ہیں۔ سینٹ پال یاپولوس کا اصل نام ساؤل تھا جو 10 عیسوی میں پیدا ہوا اور تقریباً 67ء میں فوت ہوا۔یہ شخص بنیادی طور پر کٹر یہودی تھا۔یہ کبھی حضرت عیسٰی سے نہیں ملا اور ان کی زندگی میں ان کا اور ان کی تعلیمات کا سخت مخالف تھا اور ان کو یہودیت کے لیے سخت مضر سمجھتا تھا۔عیسیٰ  کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کے بعد یہ شخص عیسائی ہو گیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے درمیان (اپنے خوابوں اور مکاشفات کے ذریعے) اس عقیدے کو عام کیا کہ’’ یسوع مسیح خدا کے ہاں اس کے نائب کی حیثیت سے موجود ہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے درمیان فیصلے وہی کریں گے، اور یہ کہ اب نجات اس شخص کو ملے گی جو یسوع مسیح کی خوشنودی حاصل کرے گا۔ اس کے لیے اب موسوی شریعت کی عملاً پابندی ضروری نہیں بلکہ محض یسوع مسیح  کے خدا کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا عقیدہ ہی نجات کے لیے کافی ہو گا‘‘۔یہی وہ شخص ہے جس نے پہلی بار یہ تعلیم بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو دینے کی بھی نصیحت کی۔ بنیادی طور پر یہ وہ شخص ہے جسے جدید اصطلاح کی زبان میں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔عیسائی مبلغّین کی پہلی کانفرنس50ء میں منعقد ہوئی(جس میں سینٹ پال نے بھی شرکت کی) جس میں تورات کے کئی احکامات کی پابندی سے غیر اسرائیلیوں کو مستثنیٰ کردیا گیا، البتہ انھیں زنا،بت پرستی اور خون آمیز گوشت کھانے سے منع کیا گیا۔ اس وقت تک حضرت عیسیٰ  کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا نہیں ہوا تھا۔
 
عیسائیت کے عقائد کی تعلیم اور اشاعت رومن دور میں ممنوع تھی اور مبلغین پر بہت تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدّد کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب رومن شہنشاہ کانسٹنٹائن نے تقریباً 312ء میں عیسائیت قبول کر لی۔لیکن یہ محض عقیدے کی قبولیت تھی ورنہ کاروبارِ مملکت پرانے رومن طریقے ہی پر چلتا رہا اور اس معاملے میں کسی عیسائی عالم کا کوئی اعتراض ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔عیسائیت کے سرکاری مذہب بن جانے کے باوجود مملکت کے سیکولر ہونے کی یہ پہلی مثال تھی۔ اس حکومتی سیکولر زم کی وجہ یہ تھی کہ سینٹ پال کی تعلیم کے مطابق عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کے بعد دنیاوی معاملات سے خدا کا تعلق ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ 325ء میں نیقیہ کے مقام (موجودہ ترکی میں ازنک) پر تقریباً 300 عیسائی بشپ اکٹھے ہوئے جنھوں نے بحث مباحثے کے بعد اس عقیدے کا اعلان کیا کہ حضرت عیسٰی خدا کے بیٹے اور اس کی ذات کا حصہ ہیں (اس طرح حضرت عیسٰی کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا کیا گیا)۔
 
تقریباً 476ء میں جرمن گاتھ حکمرانوں کے ہاتھوں مغربی یورپ میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ گاتھ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی کے عادی تھے اس لیے انھوں نے کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی یورپ میں ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ہر جگہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں اور جاگیرداریوں نے جنم لیا اور باہم جنگ و جِدال شروع ہو گئی۔یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس عرصے کو یورپ کا تاریک دور یا ازمنۂ وسطیٰ کہا جاتا ہے ۔ اسی دور میں عیسائیت میں پوپ کے منصب کا آغاز ہوا اور اسے مذہبی معاملات میں مکمل دسترس حاصل ہوگئی ، اس کا کہا خدا کا کہا سمجھا جانے لگا۔یہی دور تھا جب مصر کے صحرا میں رہنے والے کچھ عیسائی مبلغّین نے رہبانیت اختیار کی۔ 500ء میں سینٹ بینیڈکٹ، روم میں لوگوں کی اخلاقی بے راہ روی سے اس قدر تنگ آ یا کہ اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک غار میں رہایش اختیار کی تاکہ اپنے نفس کو پاک رکھ سکے۔اس مقصد کے لیے اس نے اور لوگوں کو بھی دعوت دی۔جب ایک اچھی خاصی تعداد شاگردوں کی میسّر آگئی تو 529ء میں اس نے باقاعدہ ایک راہب خانے کی بنیاد رکھی اور راہبوں کے لیے ضابطے تحریر کیے جو آج بھی راہب خانوں میں نافذ العمل ہیں۔ان ضوابط میں راہبوں کے لیے شادی کی ممانعت، مہمانوں سے آزادانہ ملنے پر پابندی، مخصوص لباس پہننے کی پابندی،سونے جاگنے، سفر کرنے اور ملنے ملانے، کھانے پینے کے آداب اور طریقے شامل تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ رہبانیت اختیار کرنے والوں نے پاکیِ نفس کے لیے غلو اور اس سے بڑھ کر انسانی جسم و جان پر بے جا پابندیاں اور تشدّد شروع کیا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔اسی کی تعلیم یہ لوگ عوام کو دیا کرتے تھے۔
 
رفتہ رفتہ یہ راہب لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ بن گئے اور مذہبی معاملات میں انھیں ایک ناقابلِ چیلنج اختیار حاصل ہو گیا۔ایک طرف ان راہبوں کے دُنیاوی اُمور سے الگ ہو جانے اور خود کو راہب خانوں تک محدود کرنے کے باعث حکومتوں کے لیے سیکولر ہونے کو ایک طرح کا کھلا میدان اور جواز فراہم ہوا، تو دوسری طرف راہبوں ، بشپوں اور پوپ کی اس مطلق العنانی نے اختیار کے غلط استعمال کو جنم دیا اور شہنشاہ کانسٹنٹائن کے عہد میں منعقدہ کونسل آف نیقیہ میں طے کردہ عیسائی عقیدے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت متشدّدانہ رویّہ اختیار کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں سیکڑوں برس تک اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے انسانی فطرت میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔پوپ چونکہ اٹلی کے شہر روم میں موجود تھا ، اس لیے تحریک احیاے علوم کا آغاز بھی(چودھویں صدی عیسوی میں) روم ہی سے ہوا۔اس تحریک کے اثرات سے لوگوں نے راہبوں اور پادریوں کی سوچ و فکر سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔اس زمانے کے فلسفیوں اور دانش وروں نے دلائل کے ذریعے عیسائیت کے مذہبی عقائد کا غیر عقلی اور غیر فطری و غیر منطقی ہونا لوگوں کے سامنے ثابت کرنا شروع کیا۔سولھویں صدی عیسوی میں بائبل میں دی گئی کائنات اور زندگی سے متعلق بعض معلومات کے سائنسی طور پر غلط ثابت ہونے سے مذہبی عقیدے کی لوگوں پر گرفت بالکل کمزور پڑ گئی۔ یہ بغاوت عیسائیت کے ایسے قوانین اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی جو حکومتی معاملات، طرزِ معاشرت، معیشت، وغیرہ سے متعلق ہوتے کہ ایسے قوانین تو عیسائیت میں تھے ہی نہیں بلکہ عیسائیت تو محض ایک عقیدے کا نام تھی جسے نیقیہ کی کونسل نے حضرت عیسٰی کی تعلیم اور توریت کے احکامات کو نظر انداز کر کے سینٹ پال کے خوابوں اور روحانی مکاشفات کے نتیجے میں اختیار کیا تھااور انسان کی نجات کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔یہ عقیدہ چونکہ یونانی دیومالا اور یونانی فلسفے کے زیرِ اثر پروان چڑھا تھا، اس لیے جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات کی ذرا سی ٹھوکر بھی نہ سہہ سکا۔
 
انسانیت پر اثرات
 
یورپ کے عوام چونکہ راہبوں کے غیر فطری مذہبی رجحانات سے تنگ آ چکے تھے اور سارا یورپ عیسائی علما کے صدیوں تک جاری رہنے والے فقہی اور مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں کے نتائج کو بھی بھگت چکا تھا، اس لیے مذہبی عقیدے سے بغاوت یورپ کے اجتماعی ضمیر میں جلد جذب ہوگئی۔ Renaissance ، یعنی تحریک احیاے علوم کا زمانۂ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بے زار فلسفیوں، دانش وروں اور فلسفی سائنس دانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونی ورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کی، جب کہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علما کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پس ماندہ ہوچکی تھی۔یورپ میں مذہب بے زاری خدا کے انکا ر اور انسان کو بندر کی اولادسمجھنے تک جا پہنچی۔اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھیری کہ: انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ساری جدوجہد کرے۔ تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں، لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقت ور کو نصیب ہوگی۔ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علَم بردار تھے)۔
 
اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹکنالوجی کا ہتھیا ر ہاتھ آجانے کے بعد یورپی اقوام کمزوراقوام پر ٹوٹ پڑیں۔ مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کے لیے کالج اور یونی ورسٹیاں تعمیر کیں۔ مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے،اُن کی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب و شکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔ فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کے ساتھ منسلک کر دیے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے(طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیا بلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑی)۔اس طرح یورپ کی خدا اورمذہب سے بغاوت پر مبنی فکر ،ادب، عمرانیات ،فلسفہ، آرٹ اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب تک دینِ اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہرطرف انتشار اور فساد پیدا کردیا ہے۔
 
افراد، طبقات اور اقوام باہم دست و گریباں ہیں۔ سیکولر نظامِ تعلیم کے نتیجے میں خدا، رسول اور احتساب بعد الموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی، لذت کوشی، حرص ،ظلم، عریانی و فحاشی، کاروباری ذہنیت، دھوکا دہی، قتل و غارت گری اور بد امنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔
 
اسلام کا نظامِ حیات
 
عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کے بجاے ایک دین بمعنی مکمّل نظامِ زندگی ہے جس کے اجزا قرآن و سُنّت میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ نظام لگ بھگ بارہ سو برس تک دُنیا کے ایک بڑے حصّے پر غالب ،حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ یا حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میں عدالتیں اسی نظام کے مطابق فیصلے کرتی رہیں، بازار میں(غیر سودی) تجارت اس کے قوانین کے مطابق ہوتی تھی، تعلیمی درس گاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی، معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کے مطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران اِن اُمور کو اسلام کا جزو لاینفک سمجھتے تھے۔ دینِ اسلام کی اصل تعلیمات گُم ہوئی ہیں نہ مسلمان علما نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں(خدا اور رسول کے بجاے) کُلّی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا، اور نہ مسلم علما نے ترکِ دنیا کے لیے ہی کبھی ایسا پُرتشدد رویّہ اختیار کیا جس سے دینِ اسلام اور علماے اسلام کے خلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کے خلاف ہو۔عقلِ سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضا ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو(ظاہر ہے مسلمان کہلانے کے لیے کلمۂ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابلِ اتّباع ماننا چاہیے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ اس کے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب، اسلام پسندی کی ’تہمت‘ سے بچنے کے لیے یا دین پسند ہونے کی صورت میں ’انتہا پسند‘ کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔
 
اسلامی ممالک میں خدا، حیات بعد الموت اور دینِ اسلام کی دُنیاوی اُمور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جوبے اطمینانی پائی جاتی ہے، اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا نام لیے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اس کی وکالت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ سیکولر لوگ 11 اگست 1947ء کو کی جانے والی بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اس کی غلط اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش(liberal)،غیر دینی(secular)

Popular posts from this blog

ماہی گیر تحریر--------- سعادت حسن منٹو   ( فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات ) سمندر رو رہا تھا۔ مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے مح...

وہ بڈھا

Minto ''راجندر سنگھ بیدی'' میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہوگئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے لئے یہاں آکر ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اس لئے اس موڑ پر آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔ بس تو خیر نہیں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میرے دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے ادھر مکان تھا اور میرے الٹے ہاتھ اسکول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا سنوار رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن یکا یک نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں.... جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا ...
سلالہ سے ملالہ تک ! نذیرالحسن