ایک سوال
افتخار عارف
افتخار عارف
میرے
آبا اجداد نے حرمتِ آدمی کے لیے
تاابد روشنی کے لیے
کلمہِ حق کہا
مقتلوں، قید خانوں، صلیبوں میں بہتا لہو
ان کے ہونے کا اعلان کرتا رہا
وہ لہو آدمی کی ضمانت بنا
تاابد روشنی کی علامت بنا
اور میں پابرہنہ سرِ کوچہِ احتیاج
رزق کی مصلحت کا اسیر آدمی
سوچتا رہ گیا
جسم میں میرے ان کا لہو ہے تو پھر یہ لہو بولتا کیوں نہیں؟
تاابد روشنی کے لیے
کلمہِ حق کہا
مقتلوں، قید خانوں، صلیبوں میں بہتا لہو
ان کے ہونے کا اعلان کرتا رہا
وہ لہو آدمی کی ضمانت بنا
تاابد روشنی کی علامت بنا
اور میں پابرہنہ سرِ کوچہِ احتیاج
رزق کی مصلحت کا اسیر آدمی
سوچتا رہ گیا
جسم میں میرے ان کا لہو ہے تو پھر یہ لہو بولتا کیوں نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ ﺅعدہ کریں
۔۔۔ محسن نقوی ۔۔۔
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے موقلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہناگئے جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئیے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئیے، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئیے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئیے
آ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئیے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے علم
آ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محاصرہ
احمد فراز
آ ﺅعدہ کریں
۔۔۔ محسن نقوی ۔۔۔
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے موقلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہناگئے جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئیے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئیے، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئیے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئیے
آ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئیے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے علم
آ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محاصرہ
احمد فراز
میرے
غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپرد ِدار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں
معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟آس پاس تو دیکھو
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
باقی صدیقی
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خودفریبی سی خودفریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبحِ آزادی
فیض احمد فیض
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غمِ دل
جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارئہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
تجارتِ دیدئہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتیں جب شمار کرنا
نوشی گیلانی
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلائےرکھوں گی صبح تک میں تمھارے رستےمیں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبادتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گءہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی مجبوریوں کے قِصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورثہ
ماں کی برسی پر
نوشی گیلانی
بیٹیاں بھی تو ماں جیسی ہوتی ہیں
ضبط کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چھپا لیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اٹ جاتی ہیں
سو حصوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
امیدوں کے ریشم بنتے۔ ساری عمر
گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عمر کی گرتی دیواروں سی ٹیک لگائے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کی کاٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدر دے دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوشی گیلانی
لاکھ ضبط خواہش کے ،بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے،بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا،فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاں تک بھی چھو آ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں ، یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی روز یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے ، یہ جانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی تلاش میں تھے ، یہ جانتا ہوں
مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ، یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول، یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے ، یہ سکھ کے نغمے ، جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت، تری جدائی میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر، ترا مغنی، وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے
اس تحریر کو بیاض نیرنگ, فراز احمد فراز کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختر شیرانی
آوارہ ¿ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن، وہ سرو ِوطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا ہم کو وہاں کے باغوں کی مستاتہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں، ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے، جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
کیا گاو ¿ں میں اب بھی ویسی ہی، مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کمسن ماہ وشیں، تالاب کی جانب جاتی ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگیں ترانے گاتی ہیں
کیا گاو ¿ں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں آتی ہیں؟
معصوم گھروں سے ب ±ھوربَہِی چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
انپ ±رن کے اجڑے مندر پر مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاو ¿نی کی ویرانی و رِقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزرا اب، کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے، پھولوں کے گندھے ہار اب، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں، نوعمر خریدار، اب، کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
آنگڑائی کا نقشہ بن بن کر، سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے، ہنستی ہوئی چہلیں کرتیں ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں، گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں، برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں، موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہان برسات کے دن، باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں، برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں جھولوں پر لہراتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں، وہ خواب گہِ مَہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی، آہ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا، للّہ بتا للّہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی فجر دم چرواہے، ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کو دھندلے سایوں کے ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا، وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
مرجاناں تھا جس کا نام بتا، وہ غنچہ ¿ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن، وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ وطن، وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں، میکے میں ہے یا س ±سرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسےکمبخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی، خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوع محبت سے پہلے : اختر شیرانی
یہ زمیں سادہ تھی، جنت نہ ہوئی تھی پیدا
زندگی میں کوئی لذّت نہ ہوئی تھی پیدا
ذہن اور فکر میں عظمت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
میرے افکار کے پھولوں میں بہار آئی نہ تھی
میرے اشعار میں رنگینی و رعنائی نہ تھی
میری تخییل میں ندرت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
بے اثر تھی، مری نظروں میں ستاروں کی بہار
کتنی افسردہ تھی قدرت کے نظاروں کی بہار
کسی منظر میں لطافت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
آرزوئیں تھیں، نہ یہ حسن بھرا خواب ان کا
نہ ا ±منگیں تھیں نہ یہ نشہ شاداب ان کا
کسی جذبے میں طراوت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
یہ جہاں سادہ تھا، بے کیف تھا یا غمزدہ تھا
ایک اِک ذرّہ پریشان تھا ، ماتم زدہ تھا
باغ ہستی میں مسرت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
نہ گھٹاو ¿ں میں تھا یہ رنگ خراماں پہلے
نہ ہواو ¿ں میں تھی یہ بوئے پر افشاں پہلے
رنگ و بو میں یہ حلاوت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
حسن خنداں تھا نہ دیوانے نظر آتے تھے
شمع روشن تھی نہ پروانے نظر آتے تھے
یہ جنوں اور یہ وحشت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
مصر افکار تھا بیگانہ زلیخاو ¿ں سے
میرے ارماں کدے محروم تھے سلماو ¿ں سے
فکر اور شعر میں لذّت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
شیریں آئی تھی نہ ایراں کی فضا سے اب تک
کوئی بلقیس نہ اٹھی تھی سبا سے اب تک
اور سلیمان کی عظمت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسو : اختر شیرانی
میرے پہلو میں جو بہہ نکلے تمہارے آنسو
بن گئے شام محبت کے ستارے آنسو
دیکھ سکتا ہے بھلا کون یہ پیارے آنسو
میری آنکھو ں میں نہ آجائیں تمہارے آنسو
اپنا منہ میرے گریباں میں چھپاتی کیوں ہو؟
دل کی دھڑکن کہیں سن لیں نہ تمہارے آنسو
شمع کا عکس جھلکتا ہے جو ہر آنسو میں
بن گئے بھیگی ہوئی رات کے تارے آنسو
مینہ کی بوندوں کی طرح ہوگئے سستے کیوں آج؟
موتیوں سے کہیں مہنگے تھے تمہارے آنسو
صاف اقرار محبت ہو زباں سے کیوں کر
آنکھ میں آگئے یوں شرم کے مارے آنسو
ہجر، ابھی د ±ور ہے، میں پاس ہوں، اے جان وفا
کیوں ہوئے جاتے ہیں بے چین تمہارے آنسو
صبح دم دیکھ نہ لے کوئی یہ بھیگا آنچل
میری چغلی کہیں کھا دیں نہ تمہارے آنسو
اپنے دامان و گریباں کو میں کیوں پیش کروں
ہیں مرے عشق کا انعام تمہارے آنسو
دم رخصت ہے قریب،اےغم فرقت !خوش ہو
کرنے والے ہیں جدائی کے اشارے آنسو
صدقے اس جان محبت کے میں اختر جس کے
رات بھر بہتے رہے شوق کے مارے آنسو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعتراف محبت : اختر شیرانی
لو آو ¿ کہ راز پنہاں کو رسوائے حکایت کرتا ہوں
دامان زبان خامشی کو لبریز شکایت کرتا ہوں
گھبرا کے ہجوم غم سے آج افشائے حقیقت کرتا ہوں
اظہا ر کی جرات کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
فکر آباد دنیا میں مری، اک مسجود افکار ہو تم
شعرستان ہستی میں مری، اک معبود اشعار ہو تم
اور میرے پرستش زا دل میں اک بت شیریں کار ہو تم
میں جس کی عبادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
مدت سے محبت کرتا تھا سو جان سے تم پر مرتا تھا
راتوں کو میں روتا رہتا تھا، راتوں کو میں آہیں بھرتا تھا
ہاں راتوں کو آہیں بھرتا تھا ، پر تم سے کہتے ڈرتا تھا
آج اس کی جسارت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
راتوں کو مرے رونے کا سماں بیدار ستارے دیکھتے ہیں
اور میرے جنوں کے عالم کو ، عالم کے نظارے دیکھتے ہیں
باغوں کے مناظر دیکھتے ہیں،نہروں کے کنارے دیکھتے ہیں
یوں شرح مصیبت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
حسرت بھری فریادوں کو مری باغوں کی فضائیں جانتی ہیں
فریاد سے لبریز آہوں کو صحرا کی ہوائیں جانتی ہیں
اور میرے مچلتے آنسوو ¿ں کو ساون کی گھٹائیں جانتی ہیں
اظہار حقیقت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
جس دن سے وہ صورت دیکھی ہے سو آرزوئیں بیتاب سی ہیں
دن ہیں تو وہ بے آرام سے ہیں راتیں ہیں تو وہ بےخواب سی ہیں
آنکھوں تلے ہر دم پھر تی ہیں وہ” ساعدیں”جو مہتاب سی ہیں
یاد‘ ان کی صبا حت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
تم چاند سے بڑھ کر روشن ہو، زہر ہ کی قسم، تاروں کی قسم
تم پھول سے بڑھ کر رنگیں ہو ، فطرت کے چمن زاروں کی قسم
تم سب سے حسیں ہو دنیا کی ، دنیا کے نظاروں کی قسم
دنیا سے بھی نفرت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
اس مکر کی دنیا میں کہ جہاں معیار صداقت کچھ بھی نہیں
دو ” اشکوں” سے بڑھ کر سچا اظہار محبت کچھ بھی نہیں
روتا ہوں تمہاری یاد میں گو، رونے کی شہادت کچھ بھی نہیں
پیش اتنی شہادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
جب رات کی بیکس تنہائی میں ، آپ کو تنہا پاتا ہوں
میں بربط دل سے سوز و گداز عشق کے نغمے گاتا ہوں
اتنا تو بتا دو تم بھی مجھے کیا میں بھی کبھی یاد آتا ہوں؟
بتلاﺅ کہ منت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کرتا ہوں
گو تم سے مجھے نسبت نہیں کچھ اور ہے تو گدا و شاہ کی ہے
وہ ذرہ ہوں جس کے دل میں نہاں، امید وصال ماہ کی ہے
اک شاعر مفلس جس کو ہوس اک قیصرہئ ذی جاہ کی ہے
پھر بھی یہ جسارت کرتا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
گر حکم دو روشن تاروں کو میں لا کے جھکا دوں قدموں پر
جنت کے شگفتہ پھولوں کی جنت سی بسا دوں قدموں پر
سجدہ گہ مہر و ماہ کو بھی سجدے میں گرا دوں قدموں پر
ناچیز ہوں ہمت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
پشیمان آرزو : اختر شیرانی
علاج درد دل بے قرار کر لیتے
تلافیءغم لیل و نہار کر لیتے
ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے
فسانہ غم فرقت انہیں سناتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت انہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ انہیں اشکبار کر لیتے
یہ کہتے”چاک گریباں کو دیکھئے تو سہی
ہمارے حال پریشاں کو دیکھئے تو سہی”
اور اس بہانے انہیں ہم کنار کر لیتے
جفائے چرخ ستم گار نے نہ دی مہلت
ہمارے بخت جفا کار نے نہ دی مہلت
کہ ان کے قدموں پر ہم، جاں نثار کر لیتے
امید وصل کبھی کامیاب ہو نہ سکی
دعائے نیم شبی مستجاب ہو نہ سکی
کہ درد دل سے انہیں بے قرار کر لیتے
الہٰی! موت کے کیا کیا مزے نہ لیتے ہم
کسی کے زانو پر سر رکھ کے جان دیتے ہم
اور اپنے غم میں انہیں سوگوار کر لیتے
گر ا ±ن کے “وعدے” کا کچھ بھی ہمیں یقیں ہوتا
تو دل میں درد، زباں پر گلہ نہیں ہوتا
غم فراق کو بھی خوش گوار کر لیتے
دل حزیں کو ہمیشہ یہ آرزو ہی رہی
نگاہ شوق کو ہر دم یہ جستجو ہی رہی
پرستش رخ رنگیں بہار کر لیتے
گر ابتدائے محبت میں موت آ جاتی
سکون خواب عدم کا مزہ چکھا جاتی
تو زندگی کو نہ یوں ناگوار کر لیتے
ستم ہے اس بت زہرہ جبیں کو کھو بیٹھے
اور اپنی زیست سے ہم نا امید ہو بیٹھے
اسی پہ کاش ہم اس کو نثار کر لیتے
“نشے” میں قطب شمالی کے پار اتر جاتے
طلسم ماہ و ثرّیا سے بھی گزر جاتے
گر ایک بار بھی ہم ان کو پیار کر لیتے
حباب عالم فانی کو پھوڑ دیتے ہم
حصار چرخ بریں کو بھی توڑ دیتے ہم
اگر کبھی ہم انہیں ہم کنار کر لیتے
خدائی بھرمیں کسی شےکی جستجوہی نہ تھی
سوائے اس کے کچھ اختر کی آرزو ہی نہ تھی
“ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ریحانہ رہتی تھی : اختر شیرانی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پ ±ھول تھی ، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے د ±ور ، مثلِ نکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراو ¿ں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہر روز ،منہ دھونے کو آتی تھی
انہی ٹیلوں کے دامن میں وہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے تلے، وہ جو کھنڈر سے جھلملاتے ہیں
یہ سب ریحانہ کے معصوم افسانے س ±ناتے ہیں
وہ ان کھنڈروں میں اِک دن، صورتِ افسانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، یہ نخلستان، اِک دن، ا ±س کا مسکن تھا
اِسی کے خرمئی آغوش میں ا ±س کا نشیمن تھا
اسی شاداب وادی میں وہ بے باکانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ پ ±ھولوں کی حسین آبادیاں ، کاشانہ تھیں ا ±س کا
وہ اِک ب ±ت تھی یہ ساری وادیاں ب ±ت خانہ تھیں ا ±س کا
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خطّہ تھا ، جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطّے میں مثلِ سبزہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اسی ویرانے میں اِک دن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آتی تھیں،ہوائیں م ±سکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنّتِ ویرانہ، رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ ویرانہ، گ ±زر، جس میں نہیں ہے کاروانوں کا
جہاں ملتا نہیں نام و نشاں تک ساربانوں کا
اِسی ویرانے میں اِک دن ،مری ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں آباد تھی اِک دن ، مرے افکار کی ملکہ
مرے جذبات کی دیوی، مرے اشعار کی ملکہ
وہ ملکہ، جو برنگِ عظمتِ شاہانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
صبا، شاخوں میں نخلستاں کی، جس دم سرسراتی ہے
مجھے ہر لہر سے ریحانہ کی آواز آتی ہے
یہیں ریحانہ رہتی ہے، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
فضائیں گونجتی ہیں اب بھی ا ±ن وحشی ترانوں سے
س ±نو، آواز سی آتی ہے ا ±ن خاکی چٹانوں سے
کہ جن میں وہ برنگِ نغمہءبیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، جنونِ شوق کا اظہار کرنے دے
مجھے اس دشت کی اِک اِک کلی سے پیار کرنے دے
جہاں اِک دن، وہ مثلِ غنچہء مستانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
بربِّ کعبہ ، ا ±س کی یاد میں ع ±مریں گنوا دوں گا!
مَیں اس وادی کے ذرّے ذرّ ے پر سجدے بچھا دوں گا
جہاں وہ جانِ کعبہ ، عظمتِ ب ±ت خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گیت گاتی تھی!
پ ±رانے س ±ورماو ¿ں کے فسانے گ ±نگناتی تھی
یہیں پر، منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کِھلکِھلاتے تھے
فضا میں منتشر اِک نکہتِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں بستی تھی اے ہمدم ، مرے رومان کی بستی
مرے افسانوں کی د ±نیا ، مرے وجدان کی بستی
یہیں ریحانہ بستی تھی، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ ز ±لف سے ا ±س کی ،مہک جاتی تھی ک ±ل وادی
نگاہِ مست سے ا ±س کی ،بہک جاتی تھی ک ±ل وادی
ہوا میں پر فشاں ، روحِ مَے و میخانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں ، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں ، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اِس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
گدازِ عشق سے لبریز تھا ، قلبِ حزیں ا ±س کا
مگر آئینہ دارِ شرم تھا، ر ±وئے حسیں ا ±س کا
خموشی میں چھپائے نغمہءمستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
ا ±سے پھولوں نے میری یاد میں بیتاب دیکھا ہے
ستاروں کی نظر نے ، رات بھر بے خواب دیکھا ہے
وہ شمع ِ ح ±سن تھی ، پر صورتِ پروانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہمرنگِ گ ±لہائے حسیں ، رہتی تھی ریحانہ
مثالِ ح ±ورِ فردوسِ بریں ، رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ دردِ دل ، اختر دئیے جاتا ہوں وادی کو
سلامِ ر ±خصتِ غمگیں ، کئے جاتا ہوں وادی کو
سلام ، اے وادیءویراں ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ وہ یاد ہے تم کو
بن سائیکل کی بتی کا چالان ہوا تھا
ہم نے کیسے بھوکے،بےچاروں سی ایکٹنگ کی تھی
حوالدار نے الٹا ایک اٹھنی دے کر بھیج دیا تھا
ایک چوونی میری تھی
وہ بھیجوا دو
میرا کچھ سامان تمھارے پاس پڑا ہے
وہ لوٹا دو
ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
اور میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے
وہ رات بجھادو
میرا وہ سامان لوٹا دو
پت جھڑ ہیں کچھ۔۔۔ ہیں نا
پت جھڑ میں کچھ پتوں
کے
گرنے کی آہٹیں
کانوں میں اک بار پہن کے لوٹ آئی تھی
پت جھڑ کی وہ شاخ ابھی تک کانپ رہی ہے
وہ شاخ گرا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک اکیلی چھتری میں جب
آدھے آدھے بھیگ رھے تھے
آدھے سوکھے،ادھے گیلے،
سوکھا تو میں لے آئی تھی
گیلا من شاید بستر کے پاس پڑا ھو
وہ بھیجوا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک سو سولہ چاند کی راتیں
ایک تمھارے کاندھے کا تل
گیلی مہندی کی خوشبو
جھوٹ موٹ کے شکوے کچھ
جھوٹ موٹ کے وعدے بھی
سب یاد دلا دوں
سب بھیجوا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک "اجازت "دے دو بس
جب اس کو دفناو ¿ں گی
میں بھی وہیں سو جاو ¿ں گی
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپرد ِدار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں
معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمھارے ساتھ ہے کون؟آس پاس تو دیکھو
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
باقی صدیقی
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خودفریبی سی خودفریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبحِ آزادی
فیض احمد فیض
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غمِ دل
جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارئہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
تجارتِ دیدئہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتیں جب شمار کرنا
نوشی گیلانی
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلائےرکھوں گی صبح تک میں تمھارے رستےمیں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبادتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گءہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی مجبوریوں کے قِصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورثہ
ماں کی برسی پر
نوشی گیلانی
بیٹیاں بھی تو ماں جیسی ہوتی ہیں
ضبط کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چھپا لیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اٹ جاتی ہیں
سو حصوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
امیدوں کے ریشم بنتے۔ ساری عمر
گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عمر کی گرتی دیواروں سی ٹیک لگائے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کی کاٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدر دے دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوشی گیلانی
لاکھ ضبط خواہش کے ،بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے،بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا،فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاں تک بھی چھو آ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں ، یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی روز یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے ، یہ جانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی تلاش میں تھے ، یہ جانتا ہوں
مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ، یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول، یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے ، یہ سکھ کے نغمے ، جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت، تری جدائی میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر، ترا مغنی، وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے
اس تحریر کو بیاض نیرنگ, فراز احمد فراز کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختر شیرانی
آوارہ ¿ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن، وہ سرو ِوطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا ہم کو وہاں کے باغوں کی مستاتہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں، ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے، جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
کیا گاو ¿ں میں اب بھی ویسی ہی، مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کمسن ماہ وشیں، تالاب کی جانب جاتی ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگیں ترانے گاتی ہیں
کیا گاو ¿ں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں آتی ہیں؟
معصوم گھروں سے ب ±ھوربَہِی چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
انپ ±رن کے اجڑے مندر پر مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاو ¿نی کی ویرانی و رِقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزرا اب، کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے، پھولوں کے گندھے ہار اب، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں، نوعمر خریدار، اب، کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
آنگڑائی کا نقشہ بن بن کر، سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے، ہنستی ہوئی چہلیں کرتیں ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں، گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں، برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں، موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہان برسات کے دن، باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں، برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں جھولوں پر لہراتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں، وہ خواب گہِ مَہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی، آہ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا، للّہ بتا للّہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی فجر دم چرواہے، ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کو دھندلے سایوں کے ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا، وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
مرجاناں تھا جس کا نام بتا، وہ غنچہ ¿ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن، وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ وطن، وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں، میکے میں ہے یا س ±سرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسےکمبخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی، خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوع محبت سے پہلے : اختر شیرانی
یہ زمیں سادہ تھی، جنت نہ ہوئی تھی پیدا
زندگی میں کوئی لذّت نہ ہوئی تھی پیدا
ذہن اور فکر میں عظمت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
میرے افکار کے پھولوں میں بہار آئی نہ تھی
میرے اشعار میں رنگینی و رعنائی نہ تھی
میری تخییل میں ندرت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
بے اثر تھی، مری نظروں میں ستاروں کی بہار
کتنی افسردہ تھی قدرت کے نظاروں کی بہار
کسی منظر میں لطافت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
آرزوئیں تھیں، نہ یہ حسن بھرا خواب ان کا
نہ ا ±منگیں تھیں نہ یہ نشہ شاداب ان کا
کسی جذبے میں طراوت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
یہ جہاں سادہ تھا، بے کیف تھا یا غمزدہ تھا
ایک اِک ذرّہ پریشان تھا ، ماتم زدہ تھا
باغ ہستی میں مسرت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
نہ گھٹاو ¿ں میں تھا یہ رنگ خراماں پہلے
نہ ہواو ¿ں میں تھی یہ بوئے پر افشاں پہلے
رنگ و بو میں یہ حلاوت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
حسن خنداں تھا نہ دیوانے نظر آتے تھے
شمع روشن تھی نہ پروانے نظر آتے تھے
یہ جنوں اور یہ وحشت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
مصر افکار تھا بیگانہ زلیخاو ¿ں سے
میرے ارماں کدے محروم تھے سلماو ¿ں سے
فکر اور شعر میں لذّت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
شیریں آئی تھی نہ ایراں کی فضا سے اب تک
کوئی بلقیس نہ اٹھی تھی سبا سے اب تک
اور سلیمان کی عظمت نہ ہوئی تھی پیدا
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسو : اختر شیرانی
میرے پہلو میں جو بہہ نکلے تمہارے آنسو
بن گئے شام محبت کے ستارے آنسو
دیکھ سکتا ہے بھلا کون یہ پیارے آنسو
میری آنکھو ں میں نہ آجائیں تمہارے آنسو
اپنا منہ میرے گریباں میں چھپاتی کیوں ہو؟
دل کی دھڑکن کہیں سن لیں نہ تمہارے آنسو
شمع کا عکس جھلکتا ہے جو ہر آنسو میں
بن گئے بھیگی ہوئی رات کے تارے آنسو
مینہ کی بوندوں کی طرح ہوگئے سستے کیوں آج؟
موتیوں سے کہیں مہنگے تھے تمہارے آنسو
صاف اقرار محبت ہو زباں سے کیوں کر
آنکھ میں آگئے یوں شرم کے مارے آنسو
ہجر، ابھی د ±ور ہے، میں پاس ہوں، اے جان وفا
کیوں ہوئے جاتے ہیں بے چین تمہارے آنسو
صبح دم دیکھ نہ لے کوئی یہ بھیگا آنچل
میری چغلی کہیں کھا دیں نہ تمہارے آنسو
اپنے دامان و گریباں کو میں کیوں پیش کروں
ہیں مرے عشق کا انعام تمہارے آنسو
دم رخصت ہے قریب،اےغم فرقت !خوش ہو
کرنے والے ہیں جدائی کے اشارے آنسو
صدقے اس جان محبت کے میں اختر جس کے
رات بھر بہتے رہے شوق کے مارے آنسو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعتراف محبت : اختر شیرانی
لو آو ¿ کہ راز پنہاں کو رسوائے حکایت کرتا ہوں
دامان زبان خامشی کو لبریز شکایت کرتا ہوں
گھبرا کے ہجوم غم سے آج افشائے حقیقت کرتا ہوں
اظہا ر کی جرات کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
فکر آباد دنیا میں مری، اک مسجود افکار ہو تم
شعرستان ہستی میں مری، اک معبود اشعار ہو تم
اور میرے پرستش زا دل میں اک بت شیریں کار ہو تم
میں جس کی عبادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
مدت سے محبت کرتا تھا سو جان سے تم پر مرتا تھا
راتوں کو میں روتا رہتا تھا، راتوں کو میں آہیں بھرتا تھا
ہاں راتوں کو آہیں بھرتا تھا ، پر تم سے کہتے ڈرتا تھا
آج اس کی جسارت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
راتوں کو مرے رونے کا سماں بیدار ستارے دیکھتے ہیں
اور میرے جنوں کے عالم کو ، عالم کے نظارے دیکھتے ہیں
باغوں کے مناظر دیکھتے ہیں،نہروں کے کنارے دیکھتے ہیں
یوں شرح مصیبت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
حسرت بھری فریادوں کو مری باغوں کی فضائیں جانتی ہیں
فریاد سے لبریز آہوں کو صحرا کی ہوائیں جانتی ہیں
اور میرے مچلتے آنسوو ¿ں کو ساون کی گھٹائیں جانتی ہیں
اظہار حقیقت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
جس دن سے وہ صورت دیکھی ہے سو آرزوئیں بیتاب سی ہیں
دن ہیں تو وہ بے آرام سے ہیں راتیں ہیں تو وہ بےخواب سی ہیں
آنکھوں تلے ہر دم پھر تی ہیں وہ” ساعدیں”جو مہتاب سی ہیں
یاد‘ ان کی صبا حت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
تم چاند سے بڑھ کر روشن ہو، زہر ہ کی قسم، تاروں کی قسم
تم پھول سے بڑھ کر رنگیں ہو ، فطرت کے چمن زاروں کی قسم
تم سب سے حسیں ہو دنیا کی ، دنیا کے نظاروں کی قسم
دنیا سے بھی نفرت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
اس مکر کی دنیا میں کہ جہاں معیار صداقت کچھ بھی نہیں
دو ” اشکوں” سے بڑھ کر سچا اظہار محبت کچھ بھی نہیں
روتا ہوں تمہاری یاد میں گو، رونے کی شہادت کچھ بھی نہیں
پیش اتنی شہادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
جب رات کی بیکس تنہائی میں ، آپ کو تنہا پاتا ہوں
میں بربط دل سے سوز و گداز عشق کے نغمے گاتا ہوں
اتنا تو بتا دو تم بھی مجھے کیا میں بھی کبھی یاد آتا ہوں؟
بتلاﺅ کہ منت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کرتا ہوں
گو تم سے مجھے نسبت نہیں کچھ اور ہے تو گدا و شاہ کی ہے
وہ ذرہ ہوں جس کے دل میں نہاں، امید وصال ماہ کی ہے
اک شاعر مفلس جس کو ہوس اک قیصرہئ ذی جاہ کی ہے
پھر بھی یہ جسارت کرتا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
گر حکم دو روشن تاروں کو میں لا کے جھکا دوں قدموں پر
جنت کے شگفتہ پھولوں کی جنت سی بسا دوں قدموں پر
سجدہ گہ مہر و ماہ کو بھی سجدے میں گرا دوں قدموں پر
ناچیز ہوں ہمت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
پشیمان آرزو : اختر شیرانی
علاج درد دل بے قرار کر لیتے
تلافیءغم لیل و نہار کر لیتے
ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے
فسانہ غم فرقت انہیں سناتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت انہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ انہیں اشکبار کر لیتے
یہ کہتے”چاک گریباں کو دیکھئے تو سہی
ہمارے حال پریشاں کو دیکھئے تو سہی”
اور اس بہانے انہیں ہم کنار کر لیتے
جفائے چرخ ستم گار نے نہ دی مہلت
ہمارے بخت جفا کار نے نہ دی مہلت
کہ ان کے قدموں پر ہم، جاں نثار کر لیتے
امید وصل کبھی کامیاب ہو نہ سکی
دعائے نیم شبی مستجاب ہو نہ سکی
کہ درد دل سے انہیں بے قرار کر لیتے
الہٰی! موت کے کیا کیا مزے نہ لیتے ہم
کسی کے زانو پر سر رکھ کے جان دیتے ہم
اور اپنے غم میں انہیں سوگوار کر لیتے
گر ا ±ن کے “وعدے” کا کچھ بھی ہمیں یقیں ہوتا
تو دل میں درد، زباں پر گلہ نہیں ہوتا
غم فراق کو بھی خوش گوار کر لیتے
دل حزیں کو ہمیشہ یہ آرزو ہی رہی
نگاہ شوق کو ہر دم یہ جستجو ہی رہی
پرستش رخ رنگیں بہار کر لیتے
گر ابتدائے محبت میں موت آ جاتی
سکون خواب عدم کا مزہ چکھا جاتی
تو زندگی کو نہ یوں ناگوار کر لیتے
ستم ہے اس بت زہرہ جبیں کو کھو بیٹھے
اور اپنی زیست سے ہم نا امید ہو بیٹھے
اسی پہ کاش ہم اس کو نثار کر لیتے
“نشے” میں قطب شمالی کے پار اتر جاتے
طلسم ماہ و ثرّیا سے بھی گزر جاتے
گر ایک بار بھی ہم ان کو پیار کر لیتے
حباب عالم فانی کو پھوڑ دیتے ہم
حصار چرخ بریں کو بھی توڑ دیتے ہم
اگر کبھی ہم انہیں ہم کنار کر لیتے
خدائی بھرمیں کسی شےکی جستجوہی نہ تھی
سوائے اس کے کچھ اختر کی آرزو ہی نہ تھی
“ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ریحانہ رہتی تھی : اختر شیرانی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پ ±ھول تھی ، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے د ±ور ، مثلِ نکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراو ¿ں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہر روز ،منہ دھونے کو آتی تھی
انہی ٹیلوں کے دامن میں وہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے تلے، وہ جو کھنڈر سے جھلملاتے ہیں
یہ سب ریحانہ کے معصوم افسانے س ±ناتے ہیں
وہ ان کھنڈروں میں اِک دن، صورتِ افسانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، یہ نخلستان، اِک دن، ا ±س کا مسکن تھا
اِسی کے خرمئی آغوش میں ا ±س کا نشیمن تھا
اسی شاداب وادی میں وہ بے باکانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ پ ±ھولوں کی حسین آبادیاں ، کاشانہ تھیں ا ±س کا
وہ اِک ب ±ت تھی یہ ساری وادیاں ب ±ت خانہ تھیں ا ±س کا
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خطّہ تھا ، جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطّے میں مثلِ سبزہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اسی ویرانے میں اِک دن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آتی تھیں،ہوائیں م ±سکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنّتِ ویرانہ، رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ ویرانہ، گ ±زر، جس میں نہیں ہے کاروانوں کا
جہاں ملتا نہیں نام و نشاں تک ساربانوں کا
اِسی ویرانے میں اِک دن ،مری ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں آباد تھی اِک دن ، مرے افکار کی ملکہ
مرے جذبات کی دیوی، مرے اشعار کی ملکہ
وہ ملکہ، جو برنگِ عظمتِ شاہانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
صبا، شاخوں میں نخلستاں کی، جس دم سرسراتی ہے
مجھے ہر لہر سے ریحانہ کی آواز آتی ہے
یہیں ریحانہ رہتی ہے، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
فضائیں گونجتی ہیں اب بھی ا ±ن وحشی ترانوں سے
س ±نو، آواز سی آتی ہے ا ±ن خاکی چٹانوں سے
کہ جن میں وہ برنگِ نغمہءبیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، جنونِ شوق کا اظہار کرنے دے
مجھے اس دشت کی اِک اِک کلی سے پیار کرنے دے
جہاں اِک دن، وہ مثلِ غنچہء مستانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
بربِّ کعبہ ، ا ±س کی یاد میں ع ±مریں گنوا دوں گا!
مَیں اس وادی کے ذرّے ذرّ ے پر سجدے بچھا دوں گا
جہاں وہ جانِ کعبہ ، عظمتِ ب ±ت خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گیت گاتی تھی!
پ ±رانے س ±ورماو ¿ں کے فسانے گ ±نگناتی تھی
یہیں پر، منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کِھلکِھلاتے تھے
فضا میں منتشر اِک نکہتِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں بستی تھی اے ہمدم ، مرے رومان کی بستی
مرے افسانوں کی د ±نیا ، مرے وجدان کی بستی
یہیں ریحانہ بستی تھی، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ ز ±لف سے ا ±س کی ،مہک جاتی تھی ک ±ل وادی
نگاہِ مست سے ا ±س کی ،بہک جاتی تھی ک ±ل وادی
ہوا میں پر فشاں ، روحِ مَے و میخانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں ، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں ، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اِس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
گدازِ عشق سے لبریز تھا ، قلبِ حزیں ا ±س کا
مگر آئینہ دارِ شرم تھا، ر ±وئے حسیں ا ±س کا
خموشی میں چھپائے نغمہءمستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
ا ±سے پھولوں نے میری یاد میں بیتاب دیکھا ہے
ستاروں کی نظر نے ، رات بھر بے خواب دیکھا ہے
وہ شمع ِ ح ±سن تھی ، پر صورتِ پروانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہمرنگِ گ ±لہائے حسیں ، رہتی تھی ریحانہ
مثالِ ح ±ورِ فردوسِ بریں ، رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ دردِ دل ، اختر دئیے جاتا ہوں وادی کو
سلامِ ر ±خصتِ غمگیں ، کئے جاتا ہوں وادی کو
سلام ، اے وادیءویراں ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ وہ یاد ہے تم کو
بن سائیکل کی بتی کا چالان ہوا تھا
ہم نے کیسے بھوکے،بےچاروں سی ایکٹنگ کی تھی
حوالدار نے الٹا ایک اٹھنی دے کر بھیج دیا تھا
ایک چوونی میری تھی
وہ بھیجوا دو
میرا کچھ سامان تمھارے پاس پڑا ہے
وہ لوٹا دو
ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
اور میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے
وہ رات بجھادو
میرا وہ سامان لوٹا دو
پت جھڑ ہیں کچھ۔۔۔ ہیں نا
پت جھڑ میں کچھ پتوں
کے
گرنے کی آہٹیں
کانوں میں اک بار پہن کے لوٹ آئی تھی
پت جھڑ کی وہ شاخ ابھی تک کانپ رہی ہے
وہ شاخ گرا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک اکیلی چھتری میں جب
آدھے آدھے بھیگ رھے تھے
آدھے سوکھے،ادھے گیلے،
سوکھا تو میں لے آئی تھی
گیلا من شاید بستر کے پاس پڑا ھو
وہ بھیجوا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک سو سولہ چاند کی راتیں
ایک تمھارے کاندھے کا تل
گیلی مہندی کی خوشبو
جھوٹ موٹ کے شکوے کچھ
جھوٹ موٹ کے وعدے بھی
سب یاد دلا دوں
سب بھیجوا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
ایک "اجازت "دے دو بس
جب اس کو دفناو ¿ں گی
میں بھی وہیں سو جاو ¿ں گی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
مری طلب تھا ایک شخص،وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی