Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2011

وہ بڈھا

Minto ''راجندر سنگھ بیدی'' میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہوگئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے لئے یہاں آکر ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اس لئے اس موڑ پر آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔ بس تو خیر نہیں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میرے دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے ادھر مکان تھا اور میرے الٹے ہاتھ اسکول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا سنوار رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن یکا یک نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں.... جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا ...

سوشلزم کیا ہے؟

''فاروق دلاور'' تعارف اور تاریخی مادیت پاکستان اس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے وہ دراصل عالمی سرمایہ داری نظام کے استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی ایک گھمبیر شکل ہے موجودہ بحران کا خاتمہ اب اصلاحات نہیں بلکہ انقلابات سے ممکن ہے۔پاکستان جیسے ملک میں رہنے والے محنت کشوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نظریاتی طور پر مسلح کریں تاکہ وہ آنے والے حالات کا درست تجزیہ کر کے درست حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ نظریات کے بغیر سیاسی کارکن کی مثال اس کشتی کی طرح ہے جو بحرے بیکاراہ میں موجوں کے جھونکے کے ساتھ اپنا رخ تبدیل کرتی ہے۔ ایسے کارکن کسی بھی بڑی تحریک میں پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ڈگمگاتے رہتے ہیں۔ لیبر پارٹی پاکستان اور اس کی ہمدرد تنظیموں کے کارکنان کی نظریاتی تربیت کے بغیر پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی کا خواب پورا نہیں کیا جاسکتا۔ مزدور جدوجہد اسی مقصد کے حصول کیلئے نظریاتی تعلیمی سلسلہ شروع کر رہا ہے۔ میدانِ عمل میں جدوجہد کرنے والے مزدور، کسان، طالب علم، خواتین اور نوجوان اس نظریاتی تعلیمی سلسلے سے فائدہ اٹھا کر ایک ایسی سیسہ پ...

حالات کیسے بدلیں گے؟

حالات کیسے بدلیں گے؟ شاہنواز فاروقی جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس صورت حال نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کو سوالیہ نشان بنادیا۔ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا وجود نہ رہا۔ معاشرہ دہشت گردی کی آگ میں جھلسنے لگا۔ پورا ملک امریکیوں کی چراگاہ بن گیا۔ امریکی غلامی نے ہمیں دس برس میں 50 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اس صورتِ حال نے جنرل پرویز کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ حکومت تبدیل ہوئی مگر پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک غربت اور مہنگائی کے طوفانوں میں گھر گیا ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی سسک رہی ہے۔ امریکہ کی مداخلت بڑھتے بڑھتے تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور قوم پر نیا ٹیکس مسلط کرنے تک آگئی ہے۔ حکمرانوں کی بدعنوانی اور نااہلی کا عذاب اس کے سوا ہے۔ ملک میں قومی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا مگر حکومت کہیں نہیں تھی۔ اس منظرنامے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ ناکام نظر آرہی ہے۔ چار دفعہ اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اقتدار میں شامل دوسری جماعتوں کی ناکامیاں اور بڑھ...

kashmakash

Picture galary

افسانے

  ماہی گیر     تحریر--------- سعادت حسن منٹو  (فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات)  سمندر رو رہا تھا۔ مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے...

World Map

حالات کیا ہیں؟ کیسے بدلیں گے؟ شاہنواز فاروقی

حالات کیا ہیں؟ کیسے بدلیں گے؟ شاہنواز فاروقی جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس صورت حال نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کو سوالیہ نشان بنادیا۔ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا وجود نہ رہا۔ معاشرہ دہشت گردی کی آگ میں جھلسنے لگا۔ پورا ملک امریکیوں کی چراگاہ بن گیا۔ امریکی غلامی نے ہمیں دس برس میں 50 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اس صورتِ حال نے جنرل پرویز کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ حکومت تبدیل ہوئی مگر پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک غربت اور مہنگائی کے طوفانوں میں گھر گیا ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی سسک رہی ہے۔ امریکہ کی مداخلت بڑھتے بڑھتے تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور قوم پر نیا ٹیکس مسلط کرنے تک آگئی ہے۔ حکمرانوں کی بدعنوانی اور نااہلی کا عذاب اس کے سوا ہے۔ ملک میں قومی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا مگر حکومت کہیں نہیں تھی۔ اس منظرنامے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ ناکام نظر آرہی ہے۔ چار دفعہ اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اقتدار میں شامل دوسری جماعتوں کی ناکامی...

جماعت اسلامی کیا ہے؟ …شاہنواز فاروقی

جماعت اسلامی کیا ہے؟ …شاہنواز فاروقی… جماعت اسلامی مفکرِ اسلام اور مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی کی انقلابی فکر و عمل کا حاصل ہے۔ مولانا مودودی تاریخ کی اُن چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخ لکھی بھی ہے، اس پر اثرانداز بھی ہوئے ہیں اور اسے بدلا بھی ہے۔ مولانا مودودی نے جس وقت اپنے کام کا آغاز کیا غلامی نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے خمیر کو بدل دیا تھا۔ یہ طبقہ نہ صرف مغربیت کا اشتہار بن چکا تھا بلکہ اس نے غلامی کو ''نعمت'' بنا لیا تھا۔ دوسری جانب مسلمانوں میں کچھ غلامی اور کچھ مغربی فکر کے زیراثر یہ خیال عام ہوگیا تھا کہ اسلام کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اسلام کا کوئی معاشی تصور نہیں، اسلام کا کوئی عالمی تناظر نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں سے کہا جارہا تھا کہ تم خود کو عقائد و عبادات اور چند اخلاقی اصولوں تک محدود سمجھو۔ مولانا مودودی نے اس اسلام دشمن فکر کو پوری قوت سے چیلنج کیا۔ انہوں نے اسلامی سیاست کے خدوخال واضح کیے، اسلامی ریاست کے تصور پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اسلام کے معاشی نظام کا جامع خاکہ مرتب کیا، اسلام کے تصورِ جہاد کا مدلل دفاع کیا، پردے کے تصو...

میرے دادا ...<>

نذیرالحسن ''عبد الرزاق صاحب نہیں سدھریں گے'' یہ وہ فقرہ ہے جو میرے کسی بھائی یا بہن نے دادا کی ''زیادتیوں'' اور ان کے ہر معاملے میں ''ٹانگ اڑانے'' کی روش سے تنگ آکر اُس ڈکشنری کے حاشیے پر درج کیا ہے، جو ہمارے دادا جان نے 1938 ء میں آٹھ آنے کے عوض خریدی تھی اور اب وہ اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اگر بے احتیاطی سے اس کے ورق پلٹیں تو اس کے خستہ ورق پھٹنے کا اندیشہ ہوتاہے۔ آج بھی بعض ایسے الفاظ جس کے معنی نہیں ملتے' وہ دادا کی 72 سالہ اس پرانی لغت میں مل جاتے ہیں اور جب بھی لفظ تلاش کیلئے ہمیںلغت کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو کسی صفحے پر درج اس قدیم اور تاریخی فقرے سے مڈبھیڑ ضرور ہوتی ہے، تب آپ سے آپ ہی ذہن ماضی کے ''خوشگوار'' ''حیرت انگیز'' اور ناقابل بیان دھندلکوں میں کھو جاتا ہے اور پھر دادا بے طرح یاد آتے ہیں اور بچپن کی یادیں دل میں ترازو ہو جاتی ہیں۔  ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ان کاسن ِ پیدایش کیا تھا، مگر جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، دادا کو اپنی نگرانی پرمامور پایا۔ یہ کرو ،وہ نہ کرو ' یہاں ...