Wednesday, November 25, 2020

ماہی گیر

تحریر--------- سعادت حسن منٹو
 (فرانسیفک شاعر وکٹر ہوٹگو کی ایک نظم کے تاثرات) 
سمندر رو رہا تھا۔ مقدر لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھںی۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتا ں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھںر۔ آسمان کی نی س قبا مںی چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھت  اپنے پورے جوبن مںک لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکنو پانی کی تز  بو مںی بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان مںن ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گر وں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس مں  چاند کی آوارہ شعاعںپ زمنم پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل اییے فضا کو نمہ روشن کر رہی تھں۔۔ اس اندھی روشنی مںع دیوار پر ماہی گرپ کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالابں جھلملا رہی تھںر۔ جھونپڑی کے کونے مںے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں مں  ملبوس اندھرکے مںو سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو مں  پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محوِ خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھر تھرا رہا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خاشلات مںا مستغرق گھٹنوں کے بل بیھ پ گنگنا رہی تھی۔ یکایک وہ لہروں کا شور سن کر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی آنے والے خطرے سے آگاہ، سایہ چٹانوں، تند ہواں اور نصف شب کی تارییم کو مخاطب کرکے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پشامنی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہںد ٹاٹ کے ایک کونے مںں بٹھی کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور مںپ یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔ 
"اے خدا۔۔۔۔۔اے بکسوکں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھل  رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عمق  گڑھے پر پاں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت مںھ رکھوا۔۔۔۔۔۔۔آہ، اگر یہ صرف نوجوان ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے۔" 
یہ کہہ کر خدا معلوم اسے کاے خایل آیا کہ وہ سر سے پر" تک کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز مں۔ کہنے لگی۔ "بڑے ہو کر انکا بھی یی  شغل ہوگا، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ مںہ نہںو آتا۔ غربت، غربت۔" 
یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خا لات مںک غرق ہوگئی۔ دفعتاً وہ اس اندھرتے خواب سے بدرار ہوئی اور اس کے دماغ مںی ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتںل اور امرا کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئںا۔ ان عمارتوں کی دلفریب راحتوں اور امرا کی تعشر پرستواں کا خایل آتے ہی اس کے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلجےے پر کسی غرح مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تارییب مںی آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کای۔ 
اسکی یہ حرکت خاہلات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حر ان تھی کہ لوگ امرا اور غریب کواں ہوتے ہں  جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پٹ  سے پد ا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کےیدو اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چزی جو اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھل  کر سمندر کی گود سے مچھلایں چھنا کر لاتا ہے تو کاآ وجہ ہے کہ مارکٹ  کا مالک بغر  محنت کئے ہر روز سنکڑاوں روپے پداا کر لتاا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجبی سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گرے اور نفع ہو مارکٹک کے مالک کو۔ رات بھر اسکا خاوند اپنا خون پسنہئ ایک کردے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند مں  چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز مں  کہنے لگی۔ 
"مجھ کم عقل کو بھلا کاک معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔" 
اس کے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "اے خدا مںس گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ایسا خامل کرنا کفر ہے۔" 
یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بٹھا گئی اور انکے معصوم چہروں کی طرف دیکھ کر بے اختاسر رونا شروع کردیا۔ 
باہر آسمان پر کالے بادل مہب  ڈائنوں کی صورت مںں اپنے ساےہ بال پریشان کئے چکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کیھت اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سائہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تارییم چھا جاتی۔ سمندر کی سں ب  لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لں  ب اور کشتورں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشناعں اس اچانک تبدیی  کو دیکھ کر آنکھںا جھپکنا شروع کر دیںکا۔ 
ماہی گرل کی بویی نے اپنے ملےد آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہںں۔ کوپنکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھا مگر صبح کا ایک سانس بھی بدوار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔ 
وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خایل مںی مستغرق رہی۔ جو اس بارش مںم سمندر کی تند موجوں کے مقابلے مںش لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اسکی عافتی کےیچل دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہںط اندھراے مںو ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف اٹھںھ، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھلا ئے لرز رہی تھی۔ اس جھونپڑی مںک روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دبا تلے دوہری ہو رہی تھی۔ 
"آہ، خدا معلوم بچائری بورہ کا کا۔ حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماہی گرو کی بو،ی زیرِ لب بڑبڑائی اور یہ خاال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔ 
وہ شکستہ جھونپڑی ایک بوبہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمتن روٹی کے قحط مں۔ موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصبتر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ مںو اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ 
ماہی گرم کی بوبی کے دل مںے ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش سے بچا ﺅکے لے  سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی لالٹنن روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تزل ہواں کی چخ  پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ کانپی اور خارل کای کہ شاید اس کی اچھی ہمسائی گہری نندک سو رہی ہے۔ 
اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھر خاموشی تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسدہہ لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جسے  اس بے جان چزئ نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا اور کھل گای۔ 
ماہی گرن کی بوری جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندھی لالٹنڑ سے روشن کر دیا، جس مںس لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوں کی صورت مںو ساجہ زمن  کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا مںب ایک مہبن خوف سانس لے رہا تھا۔ 
ماہی گرڑ کی بوری اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی مںا سمٹا ہوا تھا سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں مںا گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختاار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور دردناک آواز مںڑ کہنے لگی۔ 
"آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہں ، ماں کی محبت، گت ، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یینی قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ مردے خدا۔" 
اس کے سامنے پھوس کے بستر پر بو ہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اس کے پہلو مںا دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سنےی مںط ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھںس جھونپڑی کی خستہ چھت کو چرہ کر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھں ، جسے  انہںک کچھ پغاکم دینا ہے۔ 
ماہی گرک کی بوای اس وحشت خزو منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اس کی نمناک آنکھوں مںد ایک چمک پدیا ہوئی، اور اس نے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چزر اٹھا کر اپنی چادر مں  لپٹز لی اور اس دار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی مںم چلی آئی۔ 
چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اس نے اپنی جھولی کو ملےن بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بو ہ سے چھیمں ہوئی چز  کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمنل پر بٹھے گئی۔ 
مطلع سمندر کے افق پر سپدم ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی شعاعںے تارییک کا تعاقب کر رہی تھںا۔ ماہی گرں کی بویی بیھس  اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھڑر رہی تھی۔ ان غر۔ مربوط الفاظ کے ساتھ کن سری لہریں اپنی مغموم تانںو چھڑی رہی تھںا۔ 
"آہ مںس نے بہت برا کاو۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔۔۔یہ بھی عجبی ہے کہ مںی اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کا  واپس چھوڑ آں۔۔۔۔۔۔نہںا۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف کردے۔" 
وہ اسی قسم کے خاکلات مں۔ غلطاں و پچا ں بیھک  ہوئی تھی کہ ہوا کے زور سے دروازہ ہلا۔ یہ دیکھر اسکا کلجہب دھک سے رہ گا ، وہ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر وہںا متفکر بٹھ  گئی۔ 
"ابھی نہںے۔۔۔۔۔۔۔بچافرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں کےرہ  کتنی تکلفد اٹھانی پڑتی ہے۔ اکلےی آدمی کو سات پٹر پالنے پڑتے ہں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شور کاک ہے؟" 
یہ آواز چیتکن ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔ 
"اس کے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہںں ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ پھر اپنے اندرونی غم مںا ڈوب گئی۔ اب اس کے کانوں مںک ہوا اور لہروں کا شور مفقود ہوگاے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنے  مں۔ خاہلات کے تصادم کا کای کم شور تھا۔ 
آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی مںا گھسے ہوئے سنگریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گرں کی بوای کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خاالات مںی کھوئی ہوئی تھی۔ 
دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلی شعاعںش جھونپڑی مںد تررتی ہوئی داخل ہوئںے، ساتھ ہی ماہی گرں کاندھوں پر ایک بڑا سا جال ڈالے دہلزک پر نمودار ہوا۔ 
اس کے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکن۔ پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ آنکھںن شب بدواری کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھں ۔ جسم سردی اور غرا معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔ 
"نسمک کے ابا، تم ہو۔" ماہی گر۔ کی بو ی چونک اٹھی اور عاشقانہ بتاپبی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لا۔۔ 
"ہاں مںق ہوں پا ری" 
یہ کہتے ہوئے ماہی گر۔ کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بولی کی محبت نے اس کے دل سے رات کی کلفت کا خاکل محو کر دیا۔ 
"موسم کسا۔ تھا؟" بوکی نے محبت بھرے لہجے مں  دریافت کاٹ۔ 
"تند" 
"مچھلاکں ہاتھ آئںق؟" 
"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔" 
یہ سن کر اس کی بو ی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گرش نے اسے مغموم دیکھا اور مسکرا کر بولا۔ 
"تو مرکے پہلو مں  ہے۔۔۔۔۔۔مرےا دل خوش ہے۔" 
"ہوا تو بہت تز  ہوگی؟" 
"بہت تزم، معلوم ہو رہا تھا کہ دناو کہ تمام شطاہن مل کر اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا رہے ہںت۔ جال ٹوٹ گاش۔ رساتں کٹ گئںے اور کشتی کا منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔" پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔ "مگر تم شب بھر کا  کرتی رہی ہو پاھری؟" 
بولی کسی چز  کا خاال کرکے کانپی اور لرزاں آواز مںر جواب دیا۔ "مں ۔۔۔۔۔۔آہ کچھ بھی نہںش۔۔۔۔۔۔۔سیہی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھں ، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔" 
"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" 
"اور ہاں، ہماری ہمسایہ بوتہ مر گئی ہے۔" بوآی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ 
ماہی گرو نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اس لے  کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اس نے آہ بھری اور صرف اتنا کہا۔ "بچا ری سدھار گئی ہے۔" 
"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو لاش کے پہلو مںم لٹےع ہوئے ہںآ۔" 
یہ سن کر ماہی گرگ کا جسم زور سے کانپا اور اس کی صورت سنجدئہ و متفکر ہوگئی۔ ایک کونے مںا اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھگٹ رہی تھی، پھنکہ کر سر کھجلایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا۔ 
"پانچ بچے تھے، اب سات ہوگئے ہںت۔۔۔۔۔۔اس سے پشترق ہی اس تند موسم مںہ ہمںر دو وقت کا کھانا نصبہ نہں، ہوتا تھا۔ اب مگر خر ۔۔۔۔یہ مرنا قصور نہںا۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہںی۔" 
وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں مں۔ دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اس کی مٹھی کے برابر بھی نہںل ہںہ، ماں کووں چھنں لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہںم اور نہ ہی کسی چزآ کی خواہش ہی کر سکتے ہں ۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پشا کر سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔ 
"شاید اییں چزنوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔" اور پھر اپنی بوںی سے مخاطب ہو کر بولا۔ "پاپری جا انہںت یہاں لے آ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہونگے اگر وہ صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بد ار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت بے قرار ہوگی، جا انھںو ابھی لکرے آ۔" 
یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہو کر اس کے گھٹنوں پر چڑھنا سکھا جائنگے ۔ خدا ان اجنبوپں کو جھونپڑی مں  دیکھ کر بہت خوش ہوگا اور انھںہ زیادہ کھانے کو عطا کرے گا۔ 
"تمھںم فکر نہںگ کرنی چاہئےر پاکری۔۔۔۔۔۔۔مں  زیادہ محنت سے کام کروں گا۔" اور پھر اپنی بوای کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر بلند آواز مں  کہنے لگا۔ "مگر تم سوچ کا  رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیر  چال سے نہں  چلنا چاہئے تمھںر۔" 
ماہی گرن کی بوری نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔ 
"وہ تو یہ ہںر۔" 
دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔ (یکم فروری )1935 ) ماہی گرم

Monday, October 15, 2012

Saturday, October 13, 2012


ماہی گیر
تحریر--------- سعادت حسن منٹو

 (فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات)
سمندر رو رہا تھا۔ مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محوِ خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھر تھرا رہا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خیالات میں مستغرق گھٹنوں کے بل بیٹھی گنگنا رہی تھی۔ یکایک وہ لہروں کا شور سن کر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی آنے والے خطرے سے آگاہ، سیاہ چٹانوں، تند ہواں اور نصف شب کی تاریکی کو مخاطب کرکے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پیشانی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہیں ٹاٹ کے ایک کونے میں بیٹھ کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور میں یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔
"اے خدا۔۔۔۔۔اے بیکسوں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عمیق گڑھے پر پاں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت میں رکھیو۔۔۔۔۔۔۔آہ، اگر یہ صرف نوجوان ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے۔"
یہ کہہ کر خدا معلوم اسے کیا خیال آیا کہ وہ سر سے پیر تک کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔ "بڑے ہو کر انکا بھی یہی شغل ہوگا، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ غربت، غربت۔"
یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خیالات میں غرق ہوگئی۔ دفعتاً وہ اس اندھیرے خواب سے بیدار ہوئی اور اس کے دماغ میں ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتیں اور امرا کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئیں۔ ان عمارتوں کی دلفریب راحتوں اور امرا کی تعیش پرستیوں کا خیال آتے ہی اس کے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلیجے پر کسی غیر مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تاریکی میں آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔
اسکی یہ حرکت خیالات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حیران تھی کہ لوگ امیر اور غریب کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کیلیے اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چیز جو اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھیل کر سمندر کی گود سے مچھلیاں چھین کر لاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ مارکیٹ کا مالک بغیر محنت کئے ہر روز سینکڑوں روپے پیدا کر لیتا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجیب سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گیر اور نفع ہو مارکیٹ کے مالک کو۔ رات بھر اسکا خاوند اپنا خون پسینہ ایک کردے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند میں چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز میں کہنے لگی۔
"مجھ کم عقل کو بھلا کیا معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "اے خدا میں گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ایسا خیال کرنا کفر ہے۔"
یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بیٹھ گئی اور انکے معصوم چہروں کی طرف دیکھ کر بے اختیار رونا شروع کردیا۔
باہر آسمان پر کالے بادل مہیب ڈائنوں کی صورت میں اپنے سیاہ بال پریشان کئے چکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کبھی اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سیاہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تاریکی چھا جاتی۔ سمندر کی سیمیں لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتیں اور کشتیوں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اس اچانک تبدیلی کو دیکھ کر آنکھیں جھپکنا شروع کر دیتیں۔
ماہی گیر کی بیوی نے اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھا مگر صبح کا ایک سانس بھی بیدار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔
وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خیال میں مستغرق رہی۔ جو اس بارش میں سمندر کی تند موجوں کے مقابلے میں لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اسکی عافیت کیلیے دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہیں اندھیرے میں ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف اٹھیں، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے لرز رہی تھی۔ اس جھونپڑی میں روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دبا تلے دوہری ہو رہی تھی۔
"آہ، خدا معلوم بیچاری بیوہ کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماہی گیر کی بیوی زیرِ لب بڑبڑائی اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔
وہ شکستہ جھونپڑی ایک بیوہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمیت روٹی کے قحط میں موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصیبت کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔
ماہی گیر کی بیوی کے دل میں ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش سے بچا کے لیے سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی لالٹین روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تیز ہواں کی چیخ پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ کانپی اور خیال کیا کہ شاید اس کی اچھی ہمسائی گہری نیند سو رہی ہے۔
اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھر خاموشی تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسیدہ لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جیسے اس بے جان چیز نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا اور کھل گیا۔
ماہی گیر کی بیوی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندھی لالٹین سے روشن کر دیا، جس میں لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوں کی صورت میں سیاہ زمین کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا میں ایک مہیب خوف سانس لے رہا تھا۔
ماہی گیر کی بیوی اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی میں سمٹا ہوا تھا سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں میں گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختیار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور دردناک آواز میں کہنے لگی۔
"آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہیں، ماں کی محبت، گیت، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یعنی قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ میرے خدا۔"
اس کے سامنے پھوس کے بستر پر بیوہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اس کے پہلو میں دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سینے میں ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں جھونپڑی کی خستہ چھت کو چیر کر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں، جیسے انہیں کچھ پیغام دینا ہے۔
ماہی گیر کی بیوی اس وحشت خیز منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اس کی نمناک آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی، اور اس نے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چیز اٹھا کر اپنی چادر میں لپیٹ لی اور اس دار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی میں چلی آئی۔
چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اس نے اپنی جھولی کو میلے بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بیوہ سے چھینی ہوئی چیز کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔
مطلع سمندر کے افق پر سپید ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی شعاعیں تاریکی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ماہی گیر کی بیوی بیٹھی اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھیڑ رہی تھی۔ ان غیر مربوط الفاظ کے ساتھ کن سری لہریں اپنی مغموم تانیں چھیڑ رہی تھیں۔
"آہ میں نے بہت برا کیا۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔۔۔یہ بھی عجیب ہے کہ میں اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کیا واپس چھوڑ آں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف کردے۔"
وہ اسی قسم کے خیالات میں غلطاں و پیچاں بیٹھی ہوئی تھی کہ ہوا کے زور سے دروازہ ہلا۔ یہ دیکھر اسکا کلیجہ دھک سے رہ گیا، وہ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر وہیں متفکر بیٹھ گئی۔
"ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں کیلیے کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اکیلے آدمی کو سات پیٹ پالنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شور کیا ہے؟"
یہ آواز چیختی ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔
"اس کے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہیں ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ پھر اپنے اندرونی غم میں ڈوب گئی۔ اب اس کے کانوں میں ہوا اور لہروں کا شور مفقود ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے میں خیالات کے تصادم کا کیا کم شور تھا۔
آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی میں گھسے ہوئے سنگریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گیر کی بیوی کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔
دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلی شعاعیں جھونپڑی میں تیرتی ہوئی داخل ہوئیں، ساتھ ہی ماہی گیر کاندھوں پر ایک بڑا سا جال ڈالے دہلیز پر نمودار ہوا۔
اس کے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکین پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ آنکھیں شب بیداری کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جسم سردی اور غیر معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔
"نسیم کے ابا، تم ہو۔" ماہی گیر کی بیوی چونک اٹھی اور عاشقانہ بیتابی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لیا۔
"ہاں میں ہوں پیاری"
یہ کہتے ہوئے ماہی گیر کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بیوی کی محبت نے اس کے دل سے رات کی کلفت کا خیال محو کر دیا۔
"موسم کیسا تھا؟" بیوی نے محبت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔
"تند"
"مچھلیاں ہاتھ آئیں؟"
"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔"
یہ سن کر اس کی بیوی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گیر نے اسے مغموم دیکھا اور مسکرا کر بولا۔
"تو میرے پہلو میں ہے۔۔۔۔۔۔میرا دل خوش ہے۔"
"ہوا تو بہت تیز ہوگی؟"
"بہت تیز، معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا کہ تمام شیطان مل کر اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ جال ٹوٹ گیا۔ رسیاں کٹ گئیں اور کشتی کا منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔" پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔ "مگر تم شب بھر کیا کرتی رہی ہو پیاری؟"
بیوی کسی چیز کا خیال کرکے کانپی اور لرزاں آواز میں جواب دیا۔ "میں۔۔۔۔۔۔آہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔سیتی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھیں، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔"
"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"اور ہاں، ہماری ہمسایہ بیوہ مر گئی ہے۔" بیوی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
ماہی گیر نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اس نے آہ بھری اور صرف اتنا کہا۔ "بیچاری سدھار گئی ہے۔"
"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو لاش کے پہلو میں لیٹے ہوئے ہیں۔"
یہ سن کر ماہی گیر کا جسم زور سے کانپا اور اس کی صورت سنجیدہ و متفکر ہوگئی۔ ایک کونے میں اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھیگ رہی تھی، پھینک کر سر کھجلایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا۔
"پانچ بچے تھے، اب سات ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس سے پیشتر ہی اس تند موسم میں ہمیں دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اب مگر خیر۔۔۔۔یہ میرا قصور نہیں۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔"
وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں میں دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اس کی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہیں، ماں کیوں چھین لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پیش کر سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔
"شاید ایسی چیزوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔" اور پھر اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بولا۔ "پیاری جا انہیں یہاں لے آ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہونگے اگر وہ صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بیدار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت بے قرار ہوگی، جا انھیں ابھی لیکر آ۔"
یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہو کر اس کے گھٹنوں پر چڑھنا سیکھ جائینگے۔ خدا ان اجنبیوں کو جھونپڑی میں دیکھ کر بہت خوش ہوگا اور انھیں زیادہ کھانے کو عطا کرے گا۔
"تمھیں فکر نہیں کرنی چاہیئے پیاری۔۔۔۔۔۔۔میں زیادہ محنت سے کام کروں گا۔" اور پھر اپنی بیوی کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہنے لگا۔ "مگر تم سوچ کیا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیمی چال سے نہیں چلنا چاہئے تمھیں۔"
ماہی گیر کی بیوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔
"وہ تو یہ ہیں۔"
دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔ (یکم فروری )1935 ) ماہی گیر

Monday, February 21, 2011

وہ بڈھا

Minto


''راجندر سنگھ بیدی''
میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہوگئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے لئے یہاں آکر ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اس لئے اس موڑ پر آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔ بس تو خیر نہیں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میرے دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے ادھر مکان تھا اور میرے الٹے ہاتھ اسکول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا سنوار رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن یکا یک نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں.... جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا شریر ہنسنے مچلنے لگتا ہے۔ کوئی چوری چکے دیکھے بھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہزاروں سوئیاں ایک ساتھ چبھنے لگیں، جن سے تکلیف ہوتی ہے اور مزہ بھی آتا ہے البتہ کوئی سامنے بے شرمی سے دیکھے تو دوسری بات ہے۔  اس دن کوئی میرے پیچھے آرہا تھا۔ اسے میں نے دیکھا تو نہیں، لیکن ایک سنسناہٹ سی میرے جسم دوڑ گئی۔ جہاں میں چل رہی تھی، وہا ں برابر میں ایک پرانی شیور لیٹ گاڑی آکر رکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلکہ بوڑھا مرد بیٹھا تھا۔ وہ بہت معتبر صورت اور رعب داب والا آدمی تھا، جس کے چہرے پر عمر نے خوب لڈو کھیلی تھی۔ اس کی آنکھ تھوڑی دبی ہوئی تھی، جیسے کبھی اسے لقوہ ہوا ہو اور وٹامن سی اور بی کمپلیکس کے ٹیکے وغیرہ لگوانے، شیرکی چربی کی مالش کرنے یا کبوتر کا خون ملنے سے ٹھیک تو ہوگیا ہو، لیکن پورا نہیں۔ ایسے لوگوں پر مجھے بڑا ترس آتا ہے کیونکہ وہ آنکھ نہیں مارتے اور پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تو پہلے میں بھی اسے غلط سمجھ گئی، لیکن چونکہ میرے اپنے گھر میں چچا گووند اسی بیماری کے مریض ہیں، اس لئے میں اصل وجہ جان گئی۔ دیر تک میں اپنے آپ کو شرمندہ سی محسوس کرتی رہی۔ اس بڈھے کی داڑھی تھی جس میں روپے کے برابر ایک سپاٹ سی جگہ تھی۔ ضرور کسی زمانے میں وہاں اس کے کوئی بڑا سا پھوڑا نکلا ہوگا جو ٹھیک تو ہوگیا لیکن بالوں کو جڑ سے غائب کرگیا۔ اس کی داڑھی سر کے بالوں سے زیادہ سفید تھی۔ سر کے بال کچھڑی تھے۔ سفید زیادہ اور کالے کم، جیسے کسی نے ماش کی دال تھوڑی اور چاول زیادہ ڈال دئے ہوں۔ اس کا بدن بھاری تھا، جیسا کہ اس عمر میں سب کا ہو جاتا ہے۔ میرا بھی ہو جائے گا....کیا میٹرن گوں لگی؟ لوگ کہتے ہیں تمہاری ماں موٹی ہے، تم بھی آگے چل کر موٹی ہو جاو گی.... عجیب بات ہے نا کہ کوئی عمر کے ساتھ آپ ہی آپ ماں ہو جائے.... یا باپ۔ بڈھے کے قد کا البتہ پتہ نہ چلا، کیوں کہ وہ موٹر میں ڈھیر تھا۔ کار رکتے ہی اس نے کہاسنو۔ میں رک گئی، اس کی بات سننے کے لئے تھوڑا جھک بھی گئی۔ میں نے تمہیں دور سے دیکھا وہ بولا۔ میں نے جواب دیا جی۔ میں جو تم سے کہنے جا رہا ہوں اس پر خفا نہ ہونا۔ کہ.... میں نے سیدھی کھڑی ہو کر کہا۔ اس بڈھے نے پھر مجھے ایک نظر دیکھا، لیکن میرے جسم میں سنسناہٹ نہ دوڑی، کیوں کہ وہ بڈھا تھا۔ پھر اس کے چہرے سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں معلوم ہوتی تھی، ورنہ لوگ تو کہتے ہیں کہ بڈھے بڑے ٹھرکی ہوتے ہیں۔ تم جارہی تھیں۔ اس نے پھر بات شروع کی اور تمہاری یہ ناگن، دایاں پاوں اٹھنے پر بائیں طرف اور بایاں پاوں اٹھنے پر دائیں طرف جھوم رہی تھی....میں ایک دم کانشس ہو گئی۔ میں نے اپنی چوٹی کی طرف دیکھا جو اس وقت نہ جانے کیسے سامنے چلی آئی تھی۔ میں نے بغیر کسی اراد ے کے سر کو جھٹکا دیا اور ناگن جیسے پھنکارتی ہوئی پھر پیچھے چلی گئی۔ بڈھا کہے جا رہا تھامیں نے گاڑی آہستہ کرلی اور پیچھے سے تمہیں دیکھتا رہا.... اور آخر وہ بڈھا ایک دم بولا تم بہت خوبصورت لڑکی ہو۔میرے بدن میں جیسے کوئی تکلف پیدا ہو گیا اور میں کروٹ کروٹ بدن چرانے لگی۔ بڈھا منتر مگدھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی اس کی بات کا کیا جواب دوں؟ میں نے سنا ہے، باہر کے دیسوں میں کسی لڑکی کو کوئی ایسی بات کہہ دے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے، شکریہ ادا کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی رواج نہیں۔ الٹا ہمیں آگ لگ جاتی ہے۔ ہم کیسی بھی ہیں، کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ہمیں ایسی نظروں سے دیکھے؟ اور وہ بھی یوں.... سڑک کے کنارے، گاڑی روک کر۔ بدیسی لڑکیوں کا کیا ہے، وہ تو بڈھوں کو پسند کرتی ہیں۔ اٹھارہ بیس کی لڑکی ساٹھ ستر کے بوڑھے سے شادی کرلیتی ہے۔ میں نے سوچا، یہ بڈھا آخر چاہتا کیاہے؟ میں اس خوبصورتی کی بات نہیں کرتا۔  وہ بولا جسے عام آدمی خوبصورتی کہتے ہیں مثلا وہ گورے رنگ کو اچھا سمجھتے ہیں۔ مجھے جھر جھری سی آئی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں میرا رنگ کوئی اتنا گورا بھی نہیں سانولا بھی نہیں بس.... بیچ کا ہے۔ میں نے تو .... میں تو شرما گئی۔ آپ؟  میں نے کہا اور پھر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کوئی دیکھ تونہیں رہا؟ بس دندناتی ہوئی آئی اور یوں پاس سے گزر گئی کہ اس کے اور کار کے درمیان بس انچ بھر کا فاصلہ رہ گیا لیکن وہ بڈھا دنیا کی ہر چیز سے بے خبر تھا۔ مرنا تو آخر ہر ایک کو ہے لیکن وہ اس وقت کی بے کار اور فضول موت سے بھی بے خبر تھا۔ جانے کن دنیاوں میں کھویا ہوا تھا وہ؟ دو تین گھاٹیراما لوگ وہاں سے گزرے۔ وہ کسی نوکری پگار کے بارے میں جھگڑا کرتے جا رہے تھے۔ ان کا شور جو ایسٹر کی گھنٹیوں میں گم ہوگیا۔ دائیں طرف کے مکان کی بالکنی پر ایک دبلی سی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی آئی اور ایک بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں سے نکال کر نیچے پھینکتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ کسی نے خیال بھی نہ کیا کہ سڑک کے کنارے میرے اور اس بوڑھے کے درمیان کیا معاملہ چل رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے۔۔ بوڑھا کہتا رہاتمہارا یہ کندنی رنگ، یہ گٹھا ہوا بدن ہمارے ملک میں ہر لڑکی کا ہونا چاہئے اور پھر یکا یک بولاتمہاری شادی تو نہیں ہوئی؟ نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ کرنا بھی تو کسی گبرو جوان سے۔ جی۔۔۔اب خون میرے چہرے تک ابل ابل کر آنے لگاتھا۔ آپ سوچئے آنا چاہئے تھے یا نہیں؟ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس بڈھے کو کچھ کہتی اس نے ایک نئی بات شروع کردی۔ تم جانتی ہو، آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں؟ چور؟ میں نے کہا کیسے چور۔ جو بچوں کو چرا کر لے جاتے ہیں.... انہیں بے ہوش کر کے ایک گٹھر ی میں ڈال لیتے ہیں۔ ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ۔مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے کہا بھی تو صرف اتنا تو؟ میرا مطلب ہے مجھے.... میرا اس بات سے کیا تعلق ؟اس بڈھے نے کمر سے نیچے میری طرف دیکھا اور بولادیکھنا کہیں پولیس تمہیں پکڑ کر نہ لے جائے۔ اور اس کے بعد اس بڈھے نے ہاتھ ہوا میں لہرایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ میں بے حد حیران کھڑی تھی.... چور....گٹھری، جس میں چار چار پانچ پانچ بچے.... جب ہی میں نے خود بھی اپنے نیچے کی طرف دیکھا اور اس کی بات سمجھ گئی۔ میں ایک دم جل اٹھی.... پاجی، کمینہ شرم نہ آئی اسے؟ میں اس کی پوتی نہیں تو بیٹی کی عمر کی تو ہوں ہی اور یہ مجھ سے ایسی باتیں کر گیا، جو لوگ بدیس میں بھی نہیں کرتے۔ اسے حق کیا تھا کہ ایک لڑکی کو سڑک کے کنارے کھڑی کرلے اور ایسی باتیں کرے ایک عزت والی لڑکی سے۔ ایسی باتیں کرنے کی اسے ہمت کیسے ہوئی؟ آخر کیا تھا مجھ میں؟ یہ سب اس نے مجھ سے ہی کیوں کہا؟ بے عزتی کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.... میں کیا ایک اچھے گھر کی لڑکی دکھا ئی نہیں دیتی؟ میں نے لباس بھی ایسا نہیں پہنا جو بازاری قسم کا ہو قمیص البتہ فٹ تھی، جیسی عام لڑکیوں کی ہوتی ہے اور نیچے شلوار۔ کیوں یہ ایسا کیوں ہوا؟ ایسے کو تو پکڑ کر مارنا اور مار مار کر سور بنا دینا چاہئے۔ پولیس میں اس کی رپٹ کرنی چاہئے۔ آخر کوئی تک ہے؟ اس کی گاڑی کا نمبر؟ .... مگر جب تک گاڑی موڑ پر نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔ میں بھی کتنی مورکھ ہوں جو نمبر بھی نہیں لیا۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وقت پر دماغ کبھی کام نہیں کرتا، بعد میں یاد آتا ہے تو خود ہی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میں نے سائیکالوجی کی کتاب میں پڑھا ہے، ایسی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی عزت بھی کرتے ہیں اور اپنی بھی۔ اسی لئے مجھے وقت پر نمبر لینا بھی یاد نہ آیا۔ میں رونکھی سی ہو گئی۔ سامنے سے پودار کالج کے کچھ لڑکے گاتے، سیٹیاں بجاتے ہوئے گزر گئے۔ انہوں نے تو ایک نظر بھی میری طرف نہ دیکھا.... مگر یہ بڈھا؟! میں دراصل دادر اون کے گولے خریدنے جا رہی تھی۔ میرا فرسٹ کزن بیگل سویڈن میں تھا، جہاں بہت سردی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی آٹھ پلائی کی اون کا سویٹر بن کر اسے بھیج دوں۔ کزن ہونے کے ناطے وہ میرا بھائی تھا، لیکن تھا بدمعاش۔ اس نے لکھا تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا سویٹر بدن پر رہے گا تو سردی نہیں لگے گی! میرے گھر میں اور کوئی بھی تو نہ تھا۔ بی اے پاس کر چکی تھی اور پاپا کہتے تھےآگے پڑھائی سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کسی لڑکی کو پروفیشن میں جانا ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر ہر ہندوستانی لڑکی کی شادی ہی اس کاپروفیشن ہے تو پھر آگے پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس لئے میں گھر میں ہی رہتی اور آلتو فالتو کام کرتی تھی، جیسے سویٹر بننا یا بھیا اور بھابھی بہت رومانٹک ہو جائیں اور سینما کا پرو گرام بنالیں تو پیچھے ان کی بچی بندو کو سنبھالنا، اس کے گیلے کپڑوں، پوتڑوں کو دھونا سوکھانا وغیرہ لیکن بڈھے سے اس مڈبھیڑ کے بعد میں جیسے ہل ہی نہ سکی۔ میرے پاوں میں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا۔ پتہ نہیں آگے چل کر کیا ہو؟ اور بس میں گھر لوٹ آئی....اتنی جلدی گھر لوٹتے دیکھ کر ماں حیران رہ گئی۔ اس نے سمجھا کہ میں اون کے گولے خرید بھی لائی ہوں لیکن میں نے قریب قریب روتے ہوئے اسے ساری بات کہہ سنائی۔ اگر گول کر گئی تو وہ چار چار پانچ پانچ بچوں والی بات۔ کچھ ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو بیٹی ماں سے بھی نہیں کہہ سکتی۔ ماں کو بڑا غصہ آیا اور وہ ہوا میں گالیاں دینے لگی۔ عورتوں کی گالیاں جن سے مردوں کا کچھ نہیں بگڑتا اور جو انہیں اور بھی مشتعل کرتی ہیں۔ آخر ماں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا  اب تجھے کیا بتاوں بیٹا۔ یہ مرد سب ایسے ہوتے ہیں.... کیا جوان کیا بڈھے۔ لیکن ماں میں نے کہا پاپا بھی تو ہیں۔ ماں بولی  اب میرا منہ نہ کھلواو۔کیا مطلب ؟ دیکھا نہیں تھا اس دن؟ کیسے راما لنگم کی بیٹی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ کچھ بھی ہو، ماں کے اس مرد کو گالیاں دینے سے ایک حد تک میرا دل ٹھنڈا ہوگیا تھا مگر بڈھے کی باتیں رہ رہ کر میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی....کہیں مل جائے تو میں .... اور اس کے بعد میں اپنی بے بسی پر ہنسنے لگی۔ ذرا دیر بعد میں اٹھ کر اند رآگئی۔ سامنے آئینہ تھا۔ میں رک گئی اور اپنے سراپے کو دیکھنے لگی۔ کولھوں سے نیچے نظر گئی تو پھر مجھے اس کی چار چار پانچ پانچ بچوں والی بات یاد آگئی اور میرے گالوں کی لویں تک گرم ہونے لگیں۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر میں کس سے شرما رہی تھی؟ ہو سکتا ہے بدن کا یہی حصہ جسے لڑکیاں پسند نہیں کرتیں مردوں کو اچھا لگتا ہو۔ جیسے لڑکے سیدھے اور ستواں بدن کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہیں جانتے وہی ہم عورتوں کو اچھا لگتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو سوکھا سڑا ہونا چاہئے۔ نہیں ان کا بدن ہو تو اوپر سے پھیلا ہوا۔ مطلب.... چوڑے کاندھے، چکلی چھاتی اور مضبوط بازو۔ البتہ نیچے سے سیدھا اور ستواں ہی ہونا چاہئے۔اتنے میں باپا بیچ والے کمرے میں چلے آئے، جہاں میں کھڑی تھی۔ میرے خیالوں کا وہ تار ٹوٹ گیا۔ پاپا آج بڑے تھکے تھکے سے نظر آئے تھے، کوٹ جو وہ پہن کر دفتر گئے تھے، کاندھے پر پڑا ہوا تھا۔ ٹوپی کچھ پیچھے سرک گئی تھی۔ انہوں نے اندر آکر ایسے ہی کہا، بیٹا اور پھر ٹوپی اٹھا کر اپنے گنجے سر کو کھجایا۔ ٹوپی پھرسر پر رکھنے کے بعد وہ باتھ روم کی طرف چلے گئے، جہاں انہوں نے قمیص اتاری۔ ان کا بنیان پسینے سے تر تھا۔ پہلے انہوں نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، پھر اوپر طاق سے یوڈی کلون نکال کر بغلوں میں لگائی۔ ایک نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے لوٹ آئے اور جیسے بے فکر ہو کر خود کو صوفے میں گرا دیا۔ ماں نے پوچھا سکنجبین لوگے؟ جواب میں انہوں نے کہا، کیوں؟ وہسکی ختم ہوگئی؟.... ابھی پرسوں ہی تو لایا تھا، میکن کی بوتل۔جب میں بوتل اور گلاس لائی تو ماں اور پاپا آپس میں کچھ بات کر رہے تھے۔ میرے آتے ہی وہ خاموش ہو گئے۔ میں ڈر گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ اس بڈھے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن نہیں.... وہ چچا گووند کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ آخری بات سے مجھے یہی انداز ہوا چچا اندر سے کچھ اور ہیں، باہر سے کچھ اور۔ پھر کھانا وانا ہوا.... جس میں رات ہوگئی۔ بیچ میں بے موسم کی برسات کا کوئی چھینٹا پڑ گیا تھا اور گھر کے سامنے لگے ہوئے اشوک پیڑ کے پتے، خاکی خاکی، لمبوترے پتے، زیادہ ہرے اور چمکیلے ہو گئے تھے۔ سڑک پر کمیٹی کی بتی سے نکلنے والی روشنی ان پر پڑتی تھی تو وہ چمک چمک جاتے تھے۔ ہوا مسلسل نہیں چل رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک ایک جھونکا کر کے آرہی ہے اور جب اشوک کے پتوں سے جھونکا آکر ٹکراتا اور شاں شاں کی آواز پیدا ہوتی تو یوں لگتا جیسے ستار کا جھالاہے۔ ہمارے نانکو نے بستر لگا دیا تھا۔ میری عادت تھی کہ ادھر بستر پر لیٹی، ادھر سو گئی، لیکن اس دن نیند تھی کہ آہی نہیں رہی تھی۔ شاید اس لئے کہ سڑک پر لگے بلب کی روشنی ٹھیک میرے سرہانے پر پڑ تی تھی اور جب میں دائیں کروٹ لیتی تو میری آنکھوں میں چبھنے لگتی تھی۔ میں نے آنکھیں موند کر دیکھا تو بجلی کا بلب ایک چھوٹا سا چاند بن گیا۔ جس میں ہالے سے باہر کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں نے اٹھ کر بیڈ کو تھوڑا سا سرکا لیا لیکن اس کے باوجود وہ کرنیں وہیں تھیں فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہ خود میرے اپنے اندر سے پھوٹ رہی تھیں۔ آپ تو جانتے ہیں جیوتی شبد ہو جاتی ہے اور شبد جیوتی۔ وہ کرنیں بھی آواز میں بد ل گئیں.... اسی بڈھے کی آواز میں! دھت! میں نے کہا اور اسی کروٹ لیٹے لیٹے من میں گایتری کا پاٹ کرنے لگی لیکن وہی کرنیں چھوٹے چھوٹے، گول گول، گدرائے گدرائے بچوں کی شکل میں بدلنے لگیں۔ ان کے پیچھے ایک گبرو جوان کا چہرہ نظر آرہا تھا، لیکن دھندلا دھندلا سا۔ وہ شاید ان بچوں کا باپ تھا۔اس کی شکل اس بڈھے کی شکل سے ملتی تھی....نہیں تو.... پھر اس نوجوان کی شکل صاف ہونے لگی۔ وہ ہنس رہا تھا۔ اس کی بتیسی کتنی سفید اور پکی تھی۔ اس نے فوج کی لیفٹیننٹ کی وردی پہن رکھی تھی۔ نہیں.... پولیس انسپکٹر کی۔ نہیں.... سوٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں وہ بے حد خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔ اپنی نیند واپس لانے کے لئے میں نے ٹیچر کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرنا شروع کیا۔ میں فرضی بھیڑیں گننے لگی۔ مگر بے کار تھا، سب کچھ بے کار تھا۔ پر ماتماجانے اس بڈھے نے کیا جادو جگایا تھا، یا میری اپنی ہی قسمت پھوٹ گئی تھی۔ اچھی بھلی جارہی تھی، بیگل کے لئے اون کے گولے خریدنے۔ بیگل! دھت.... وہ میرا بھائی تھا۔ پھر گولے کے اون کے موٹے موٹے بنے ہوئے دھاگے پتلے ہوتے گئے اور مکڑی کے جال کی طرح میرے دماغ میں الجھ گئے۔ پھر جیسے سب صاف ہوگیا۔ اب سامنے ایک چٹیل میدان تھا، جس میں کوئی ولی اوتار بھیڑیں چرا رہا تھا۔ وہ بش شرٹ پہنے ہوئے تھا، تندرست، مضبوط اور خوبصورت۔ لاابالی پن میں اس نے شرٹ کے بٹن کھول رکھے تھے اور چھاتی کے بال صاف اور سامنے نظر آرہے تھے، جن میں سر رکھ کر اپنے دکھڑے رونے میں مزہ آتا ہے۔ وہ بھیڑیں کیوں چرا رہا تھا؟ اب مجھے یاد ہے وہ بھیڑیں گنتی میں تہتر تھیں.... میں سو گئی.... مجھے کچھ ہوگیا۔ نہ صرف یہ کہ میں بار بار خود کو آئینے میں دیکھنے لگی بلکہ ڈرنے بھی لگی۔ بچے بری طرح میر ے پیچھے پڑے ہوئے تھے اورمیں پکڑے جانے کے خوف میں کانپ رہی تھی۔ گھر میں میرے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں۔ روز کوئی نہ کوئی دیکھنے کو چلا آتا تھا، لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی پسند نہ تھا۔ کوئی مرا مرگھلا تھا اور کوئی تندرست تھا بھی تو اس نے کنویکس شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ اس صاحب نے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ کی ہوگی۔ نہیں چاہئے کیمسٹری۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھاجو میری نظر میں جچ سکے.... وہ نظر جو اب میری نہ تھی، بلکہ اس بڈھے کی نظر ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب سینما تماشے جانے کو بھی میرادل نہیں چاہتا تھا، حالان کہ شہر میں کئی نئی اور اچھی پکچریں لگی تھیں اور وہی ہیرو لوگ ان میں کام کرتے تھے جو کل تک میرے چہیتے تھے لیکن اب وہ یکایک مجھے سسی دکھائی دینے لگے۔ وہ ویسے ہی پیڑ کے پیچھے سے گھوم کر لڑکی کے پاس آتے تھے اور عجیب طرح کی زنانہ حرکتیں کرتے ہوئے اسے لبھانے کی کوشش کرتے تھے۔ بھلا مرد ایسے کہاں ہوتے ہیں؟ عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے....ہشت! وہ تو اسے موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کے لئے روئے، تڑپے۔ حد ہے نا، مرد ہی نہیں جانتے کہ مرد کیا ہے؟ ان میں سے ایک بھی تو میری کسوٹی پر پورا نہیں اتر تا تھا.... جو میری کسوٹی بھی نہ تھی۔ ان ہی دنوں میں نے اپنے آپ کو پریج کے میدان میں پایا جہاں ہند اور پاکستان کے بیچ ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے کم از کم چار پانچ ایسے تھے جو نظروں کو لوٹ لیتے تھے۔ ادھر ہند کی ٹیم میں بھی اتنی ہی تعداد میں خوابوں کے شہزادے موجود تھے.... چار پانچ، جن میں سے دو سکھ تھے۔ چار پانچ ہی کیوں؟ مجھے ہنسی آئی.... پاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقی.... کیا کھلاڑی تھا! اس کی ہاکی کیا تھی؟ چمبک پتھر تھی، جس کے ساتھ گیند چمٹی ہی رہتی تھی۔ یوں پاس دیتا تھا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ چلتا تو یوں جیسے مینز لینڈ میں جا رہا ہے۔ ہندوستانی سائیڈ کے گول پر پہنچ کر ایسا نشانہ بٹھاتا کہ گولی کی سب محنتیں بے کار اور گیند پوسٹ کے پار! گول!.... تماشائی شور مچاتے، بمبئی کے مسلمان نعرے لگاتے، بغلیں بجاتے۔ یہی نہیں اتری بھارت کے ہندوستانی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ہندوستانی ٹیم کا شنگارا سنگھ تھا....کیا کارنر لیتا تھا! جب اس نے گول کیا تو اس سے بھی زیادہ شور ہوا۔ اب دونوں طرف کے کھلاڑی فاول کھیلنے لگے۔ وہ آزادانہ ایک دوسرے کے ٹخنے گھٹنے توڑنے لگے.... لیکن میچ چلتا رہا۔پاکستانی ٹیم ہندوستانی پر بھاری تھی۔ ان میں سے کسی کے ساتھ لو لگانا میرے لئے ٹھیک بھی نہ تھا لیکن.... ہر وہ چیز انسان کو بھڑکاتی ہے جسے کرنے سے منع کیا گیا ہو۔ ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کرلیتی ہے یا مسلمان لڑکی سکھ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو کیسا شور مچتا ہے! کوئی نہیں پوچھتا اس لڑکی سے کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ چاہے وہ لڑکی خود ہی بعد میں کہے.... کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سکھ سب ایک ہی سے کمینے ہیں۔ ہندوستانی ٹیم میں ایک کھلاڑی اسٹینڈ بائی تھا جو سب سے زیادہ خوبصورت اور گبرو جوان تھا۔ اسے کھلا کیوں نہیں رہے تھے؟ کھیل کے بعد جب میں آٹو گراف لینے کے لئے کھلاڑیوں کے پا س گئی تو میں نے اپنی کاپی اس اسٹینڈ بائی کے سامنے بھی کردی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ وہ تو کھیلا ہی نہ تھا۔ میں نے اس سے کہاتم کھیلوگے۔ ایک دن کھیلو گے۔ کوئی بیمار پڑ جائے گا، مگر.... تم کھیلوگے۔ سب کو مات دو گے، ٹیم کے کیپٹن بنو گے!اسٹینڈ بائی کا تو جیسے دل ہی پگھل کر باہر آگیا۔ نم آنکھوں سے اس نے میری طرف دیکھا جیسے میں جو کچھ کہہ رہی ہوں وہ الہام ہے! اور شاید وہ الہام تھا بھی، کیوں کہ وہ سب کچھ میں تھوڑا ہی کہہ رہی تھی۔ میرے اندر کی کوئی چیز تھی جو مجھے وہ سب کچھ کہنے کو مجبور کر رہی تھی۔ پھر میں نے اسے چائے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کرلی اور میں اسے ساتھ لے کر لارڈ پہنچ گئی۔ جب میں اس کے ساتھ چل رہی تھی تو ایک سنسناہٹ تھی جو میرے پورے بدن میں دوڑ دوڑ جاتی تھی۔ کیسے ڈر خوشی بن جاتا ہے اور خوشی ڈر۔ میں نے چندیری کی جو ساڑھی پہن رکھی تھی، بہت پتلی تھی۔ مجھے شرم آرہی تھی اور شرم ہی شرم میں ایک مزہ بھی۔ کبھی کبھی مجھے یاد آتا تھا اور پھر بھول بھی جاتی تھی کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کوئی نہیں تھا، میرے اور اس اسٹینڈ بائی کے سوا جس کا نام جے کشن تھا لیکن اسے سب پر نٹو کے نام سے پکارتے تھے۔ ہم دونوں لارڈ پہنچ گئے اور ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کی قربت سے ہم دونوں شرابی ہوگئے تھے۔ ہم ساتھ لگ کے بیٹھے تھے کہ الگ ہٹ گئے اور پھر ساتھ لگ کر بیٹھ گئے۔ بدنوں میں سے ایک بو لپک رہی تھی.... سوندھی سوندھی، جیسے تنورمیں پڑی ہوئی روٹی سے اٹھتی ہے۔ میں چاہتی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کچھ ہو جائے۔ پیار، جیسے پیار کوئی آ لا کارت ڈش ہوتی ہے۔ چائے آئی جسے پیتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ چور نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے.... میرے بدن کے اسی حصے کو جہاں اس بڈھے کی نظریں ٹکی تھیں۔ وہ بڈھا تھا؟ ماں نے کہا تھا.... مرد سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، کیا جوان کیا بڈھے؟ ہو سکتا تھا ہماری بات آگے بڑھ جاتی، لیکن پرنٹو نے سارا قلعہ ڈھیر کردیا۔ پہلے اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دبا دیا۔ اس حرکت کو میں نے پیار کی اٹھکیلی سمجھا لیکن اس کے بعد وہ سب کی نظریں بچا کر اپنا ہاتھ میرے شریر کے اس حصے پر دوڑانے لگا، جہاں عورت مرد سے جدا ہو نے لگتی ہے۔ میرے تن بدن میں آگ سی لپک آئی۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں.... نفرت کی، محبت کی۔ میرا چہرہ لال ہونے لگا۔ میں باتیں بھولنے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا تو اس نے مایوس ہو کر رات کو بیک بے میں چلنے کی دعوت دی، جسے فورا مانتے ہوئے میں نے ایک طرح انکار کردیا۔ وہ مجھے، عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھرے پہ تو آتی ہے مگر سیدھے نہیں۔ اس کی تو گالی بھی بے حیا مرد کی طرح سیدھی نہیں ہوتی۔ اس کا سب کچھ گول مول، ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہے۔ روشنی سے وہ گھبراتی ہے، اندھیرے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ آخر اندھیرا رہتا ہے نہ ڈر، کیوں کہ وہ ان آنکھوں سے پرے، ان روشنیوں سے پرے ایک ایسی دنیا میں ہوتی ہے جو سانسوں کی دنیا، یوگ کی دنیا ہوتی ہے، جسے آنکھوں کے بیچ کی تیسری آنکھ ہی گھور سکتی ہے۔گے لارڈ سے باہر نکلے تو میرے اور پرنٹو کے درمیان سوا تندرستی کے اور کوئی بات مشترک نہ رہی تھی۔ میرے کھسیائے ہونے سے وہ بھی کھسیا چکا تھا۔ میں نے سڑک پر جاتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا۔ پرنٹونے بڑھ کر میرے لئے دروازہ کھولا اور میں لپک کر اندر بیٹھ گئی۔ بیک بے۔پرنٹو نے مجھے یاد دلایا۔ میں نے طوطے کی طرح رٹ دیا  بیک بے.... اور پھر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف منہ موڑتے ہوئے بولی....ماہم۔ بیک بے نہیں؟  وہ بولا۔ نہیں  میں نے کرخت سی آواز میں جواب دیاماہم۔  آپ تو ابھی.... چلو، جہاں میں کہتی ہوں۔ ٹیکسی چلی تو پرنٹو نے میری طرف ہاتھ پھیلایا جو اتنا لمبا ہو گیا کہ محمد علی روڈ، بائیکلہ، پریل، دادر، ماہم، سیتلا دیوی، ٹیمپل روڈ تک میرا پیچھا کرتا رہا اور مجھے گدگداتا رہا۔ آخر میں گھر پہنچ گئی۔ اندر یادو بھیا ایک جھٹکے کے ساتھ بھابھی کے پاس سے اٹھے.... میں سمجھ گئی، کیوں کہ ماں کا کڑا حکم تھا کہ میرے سامنے وہ اکٹھے نہ بیٹھا کریں.... گھر میں جوان لڑکی ہے۔ میں نے لپک کر بندو کو جھولے میں سے اٹھایا اور اس سے کھیلنے لگی۔ بندو مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ ایک پل کے لئے تو میں گھبرا گئی.... جیسے اسے سب کچھ معلوم تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کو سب پتہ ہوتا ہے، صرف وہ کہتے نہیں۔ گھر میں گووند چاچا بھی تھے جو پاپا کے ساتھ اسٹڈی میں بیٹھے تھے اور ہمیشہ کی طرح سے ماں کی ناک میں دم کئے ہوئے تھے۔ عجیب تھا دیور بھابھی کا رشتہ۔ جب ملتے تھے ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ لڑنے، جھگڑنے، گالی گلوچ کے سوا کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ پاپا ان کی لڑائی میں کبھی دخل نہ دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے نا کہ ایک روز کی بات ہو تو کوئی بولے بکے بھی، لیکن روز روز کا یہ جھگڑاکون نمٹائے گا؟ اور ویسے بھی سب کچھ ٹھیک ہی تو تھا۔ کیوں کہ اس ساری لے دے کے باوجود ماں ذرا بھی بیمار ہوتی تو ہمیشہ گووند ہی کو یاد کرتی اور بھی تو دیور تھے ماں کے، جن سے اس کا پائے لاگن اور جیتے رہوکے سوا کوئی رشتہ نہ تھا۔ وہ ماں کو تحفوں کی رشوت بھی دیتے تھے، لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دینا تو ایک طرف گووند چچا تو ماں کو الٹا ٹھگتے ہی رہتے تھے لیکن اس پر بھی وہ اسے سب سے زیادہ سمجھتی تھی اور وہ لے کر الٹا ماں کویہ احساس دلاتے تھے جیسے اس کی سو پشتوں پر احسان کر رہے ہیں۔ کئی بار ماں نے کہا گووند اس لئے اچھا ہے کہ اس کے دل میں کچھ نہیں اور پاپا ہمیشہ یہی کہتے تھے دماغ میں بھی کچھ نہیں اور ماں اس بات پر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتی اور جب وہ گووند چاچا سے اپنی دیورانی کے بارے میں پوچھتی۔ تم اجتیا کو کیوں نہیں لائے؟تو جواب یہی ملتا کیا کروں لا کر؟ تم سے اس کی چوٹی کھنچوانا ہے؟ جلی کٹی سنوانا ہے؟ ماں جواب میں گالیاں دیتی، گالیاں کھاتی اور چاچا کے چلے جانے کے بعد دھاڑیں مار مار کر روتی اورپھر وہی .... کہاں ہے گووند؟ اسے بلاو۔ میرا تو اس گھر میں وہی ہے۔ اپنے باپ کا کیا پوچھتی ہو؟ وہ تو ہیں بھولے مہیش، گوبر گنیش۔ ان کے تو کوئی بھی کپڑے اتروالے....  اور یہ میں نے ہر جگہ دیکھا ہے، ہر بیوی اپنے میاں کو بہت سیدھا، بہت بے وقوف سمجھتی ہے اور وہ چپ رہتا ہے۔ شاید اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ اس دن گووند چاچا ڈائریکٹر جنرل شپنگ کے دفتر میں کام کرنے والے کسی مسٹر سولنکی کی بات کر رہے تھے اور اصرار کر رہے تھے میری بات آپ کو ماننا پڑے گی۔ تم بخس میں ہو نا۔ ماں کہہ رہی تھی  اس میں بھی کوئی سوارتھ ہو گا تمہارا۔ اس پر گووند چچا جل بھن گئے۔ انہوں نے چلاتے ہوئے کہا تم کیا سمجھتی ہو؟ کامنی تمہاری ہی بیٹی ہے، میری نہیں ہے۔ اب مجھے پتہ چلا کہ مسٹر سولنکی کے لڑکے کے ساتھ میرے رشتے کی بات چل رہی ہے اور اس کے بعد کسی کنڈم اسپنڈل کی طرح اوربھی دھاگے کھلنے لگے، جن کا مجھے آج تک پتہ نہ تھا۔ گووند چچا کے منہ میں جھاگ تھی اور وہ بک رہے تھے تو....تو نے اجیتا کے ساتھ میری شادی کردی۔ میں نے آج تک کبھی چوں چراں کی؟.... کہتی تھی، میرے مائیکے کی ہے، دور کے رشتے سے میرے ماما کی لڑکی ہے.... یہ بڑی بڑی آنکھیں۔ اب ان آنکھوں کو کہاں رکھوں؟ بولو....کہاں رکھوں؟ زندگی کیا آنکھوں سے بتاتے ہیں؟ وہی آنکھیں اب وہ مجھے دکھاتی ہے اور تو اور تجھے بھی دکھاتی ہے۔پہلی بار میں نے گووند چاچا کا بریک ڈاون دیکھا۔ میں سمجھتی تھی وہ آدرش آدمی ہیں اور اجیتا چاچی سے پیار کرتے ہیں۔ آج یہ رازکھلا کہ ان کے ہاں بچہ کیوں نہیں ہوتا۔ فیملی پلاننگ تو ایک نا م ہے۔ ماں نے کہا کامنی تمہاری بیٹی ہے اسی لئے تو نہیں چاہتی کہ اسے بھی کسی گڑھے میں پھینک دو۔ میرا خیال تھا کہ اس پر اور تو تو میں میں ہو گی اور گووند چاچا بائیں بازو کی پارٹی کی طرح واک آوٹ کر جائیں گے، لیکن وہ الٹا قسمیں کھانے لگے تمہاری سوگند بھابی۔ اس سے اچھا لڑکا تمہیں نہ ملے گا۔ وہ بڑودہ کی سنٹرل ریلوے کی ورک شاپ میں فورمین ہے۔ بڑی اچھی تنخواہ پاتاہے۔ میں سب کچھ سن رہی تھی اور اندر جھلا رہی تھی.... ہو نہ لڑکا اچھا ہے، تنخواہ اچھی ہے.... لیکن شکل کیسی ہے، عقل کیسی ہے، عمر کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی کچھ کہتا ہی نہیں۔ فورمین بنتے بنتے برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ ہمارا دیس ہے۔ پچاس سال کا مرد بھی بیاہنے آئے تو یہاں کی بولی میں اسے لڑکا ہی کہتے ہیں۔ اس کی صحت کیسی ہے؟ کہیں انٹیلیکچول تو نہیں معلوم ہوتا؟ اسی دم مجھے پرنٹو کا خیال آیا جو اس وقت بیک پہ میرا انتظار کر رہا ہوگا.... اسٹینڈ بائی! جو زندگی بھر اسٹینڈ بائی ہی رہے گا۔ کبھی نہ کھیلے گا۔ اسے کھیلنا آتا ہی نہیں۔ اس میں صبر ہی نہیں۔ پھر مجھے اس غریب پر ترس آنے لگا۔ جی چاہا بھاگ کر اس کے پاس چلی جاوں۔ اسے تو میں نے دیکھا اور پسند بھی کیا تھا، لیکن اس فورمین کو جو بیک گراونڈ میں کہیں مسکرا رہا تھا.... پھر جیسے من کے اندھیرے میں مچھر بھنبھناتے ہیں....مس گپتا سے مسز سولنکی کہلائی تو کیسی لگوں گی....بکواس! گووند چاچا کہہ رہے تھیلڑکا تن کا اجلاہے، من کا اجلاہے اس کی آتما کتنی اچھی ہے، اس کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچوں سے پیار کرتاہے۔ بچے اس پر جان دیتے ہیں، اس کے اردگرد منڈلاتے ہیں، ہی ہی، ہو ہو، ہاہا کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ غی غی، غو غو، غاں غاں.... بس.... میں اندر کے کسی سفر سے اتنا تھک چکی تھی کہ رات کو مجھے بھیڑیں گننے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ایک سپاٹ، بے رنگ، بے خواب سی نیند آئی.... ایسی نیند جو لمبے رت جگوں کے بعد آتی ہے۔ دو ہی دن بعد وہ لڑکا ہمارے گھر پر موجود تھا۔ ارے! یہ سب اندازے کتنے غلط نکلے! .... وہ ہاکی ٹیم کے سب لڑکوں.... کیاکھیلنے والے اور کیا اسٹینڈ بائی.... سب سے زیادہ گبرو، زیادہ جوان تھا۔ اس نے صرف کسرت ہی نہیں کی تھی، آرام بھی کیا تھا۔ اس کا چہرہ اندر کی گرمی سے تمتمایا ہوا تھا۔ رنگ کندنی تھا.... میری طرح۔ مضبوط دہانہ، مضبوط دانتوں کی باڑھ.... جیسے بے شمار گنے چوسے ہوں، گاجر، مولیاں کھائی ہوں، شاید کچے شلغم بھی۔ وہ ایک طرف گھبرایا ہوا تھا اور دوسری طرف اپنی گھبراہٹ کو بہادری کی اوٹ میں چھپا رہا تھا۔ آتے ہی اس نے مجھے نمستے کی، میں نے بھی جواب میں نمستے کر ڈالی۔ پھر اس نے ماں کو پرنام کیا۔ جب وہ میری طرف نہ دیکھتا تھا تو میں اسے دیکھ لیتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ کسی کو پتہ نہ چلا کہ میری ٹانگیں کپکپانے لگی ہیں اور دل دھڑام سے شریر کے اندر ہی کہیں نیچے گر گیا ہے۔ آج کل کی لڑکی ہونے کے ناطے مجھے ہسٹیریا کا ثبوت نہیں دینا تھا، اس لئے ڈٹی رہی۔ بیچ میں مجھے خیال آیا کہ بے کار کی بغاوت کی وجہ سے میں نے تو اپنے بال بھی نہیں بنائے تھے۔ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی۔ وہ بچھی جا رہی تھی، جیسے بیٹوں کی شادی سے پہلے مائیں بچھتی ہیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے وہ لڑکا نہیں، اس کی ماں مر مٹی ہے اور جانے مجھ میں اپنے مستقبل کا کیا دیکھ رہی ہے؟ اس کی اپنی صحت بہت خراب تھی اور وہ اپنی کبھی کی خوبصورتی اور تندرستی کی باتیں کرکے اپنے بیٹے کے لئے مجھے مانگ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اسے اپنی ماں پر بھروسہ نہیں.... وہ بھکارن کہہ رہی تھی۔ لڑکوں کی خوبصورتی کس نے دیکھی ہے؟ لڑکے سب خوبصورت ہوتے ہیں.... بس اچھے گھر کے ہوں، کماو ہوں.... اور وہ اپنی ماں کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا ظلم کر رہی ہے۔ میری ماں کے کہنے پر وہ کچھ شرماتا ہوا میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور باتیں کرو کے حکم پر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔  پہلے تو میں چپ رہی۔ پھر جب بولی تو صرف یہ ثابت ہوا کہ میں گونگی نہیں ہوں۔ سفید قمیص، سفید پتلون اور سفید ہی بوٹ پہنے وہ کرکٹ کا کھلاڑی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کیپٹن نہیں تو بیٹس مین ہوگا۔ نہیں بولر .... بولر، جو تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگے آتا ہے اور بڑے زور کے سپن سے گیند کو پھینکتا ہے .... اور وکٹ صاف اڑجاتی ہے۔ ہاں بیٹس مین اچھا ہو تو چوکسی کے ساتھ گیند کو باونڈری سے بھی پرے پھینک دیتا ہے، نہیں تو خود ہی آوٹ! ماں کے اشارے پر میں نے اس سے پوچھا آپ چائے پئیں گے؟ جی؟ اس نے چونک کر کہا اور پھر جیسے میری بات کہیں دھرتی کے پورے کرے کا چکر کاٹ کر اس کے دما غ میں لوٹ آئی اور وہ بولا آپ پئیں گی؟ میں ہنس دی میں نہ پیوں تو کیا آپ نہیں پئیں گے؟ آپ پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا۔ میں حیران ہوئی، کہ وہ بھی ایسا ہی تھا جیسے ماں کے سامنے میرے پاپا.... لیکن ایسا تو بہت بعد میں ہوتا ہے۔ وہ شروع میں ہی ایسا تھا۔ چائے بنانے کے لئے اٹھی تو سامنے آئینے پرمیر ی نظر گئی۔ وہ مجھے جاتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ساڑھی سے اپنے بدن کو چھپایا اور پھر اس بڈھے کے الفاظ یاد آگئے....آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں.... دیکھنا کہیں پولیس ہی نہ پکڑ لے تمہیں.... بس کچھ ہی دن میں میں پکڑی گئی۔ میری شادی ہوگئی۔ میرے گھر کے لوگ یوں تو بڑے آزاد خیال ہیں، لیکن دیدی پر بٹھاتے ہوئے انہوں نے جیسے مجھے بوری میں ڈال رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ پاوں پر کسی کی نظر بھی نہ پڑے۔ میں پردہ پسند کرتی ہوں، لیکن صرف اتنا جس میں دکھائی بھی دے اورشرم بھی رہے۔ زندگی میں ایک بار ہی تو ہوتا ہے کہ وہ دبے پاوں آتا ہے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس گھونگھٹ کو اٹھاتا ہے جسے بیچ میں سے ہٹائے بنا پرماتما بھی نہیں ملتا۔ شادی کے ہنگامے میں میں نے تو کچھ نہیں دیکھا کون آیا، کون گیا۔ بس چھوٹے سولنکی میرے من میں سمائے ہوئے تھے۔ میں نے جو بھی کپڑا، جو بھی زیور پہنا تھا، جو بھی افشاں چنی تھی، ان ہی کی نظروں سے دیکھ کر، جیسے میری اپنی نظریں ہی نہ رہی تھیں۔ میں سب سے بچنا، سب سے چھپنا چاہتی تھی تاکہ صرف ایک کے سامنے کھل سکوں، ایک پر اپنا آپ وار سکوں۔ جب برات آئی تو میری سہلیوں نے بہت کہا، بالکونی پر آجاو، برات دیکھ لو۔ لیکن میں نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ میں نے ایک روپ دیکھا تھا جس کے بعد کوئی دوسرا روپ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آخر میں نے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔ سب میرے سواگت کے لئے کھڑے تھے۔ گھر کی سب عورتیں، سب مرد.... بچوں کی ہنسی سنا ئی دے رہی تھیں اور وہ مجھے گھونگھٹ میں سے دھندلے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ سب رسمیں ادا ہوئیں جیسی ہر شادی میں ہوتی ہیں۔ ٭٭٭

ماہی گیر

تحریر--------- سعادت حسن منٹو  (فرانسیفک شاعر وکٹر ہوٹگو کی ایک نظم کے تاثرات)  سمندر رو رہا تھا۔ مقدر لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا ...