Skip to main content

ماہی گیر

تحریر--------- سعادت حسن منٹو
 (فرانسیفک شاعر وکٹر ہوٹگو کی ایک نظم کے تاثرات) 
سمندر رو رہا تھا۔ مقدر لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھںی۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتا ں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھںر۔ آسمان کی نی س قبا مںی چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھت  اپنے پورے جوبن مںک لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکنو پانی کی تز  بو مںی بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان مںن ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گر وں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس مں  چاند کی آوارہ شعاعںپ زمنم پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل اییے فضا کو نمہ روشن کر رہی تھں۔۔ اس اندھی روشنی مںع دیوار پر ماہی گرپ کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالابں جھلملا رہی تھںر۔ جھونپڑی کے کونے مںے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں مں  ملبوس اندھرکے مںو سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو مں  پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محوِ خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھر تھرا رہا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خاشلات مںا مستغرق گھٹنوں کے بل بیھ پ گنگنا رہی تھی۔ یکایک وہ لہروں کا شور سن کر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی آنے والے خطرے سے آگاہ، سایہ چٹانوں، تند ہواں اور نصف شب کی تارییم کو مخاطب کرکے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پشامنی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہںد ٹاٹ کے ایک کونے مںں بٹھی کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور مںپ یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔ 
"اے خدا۔۔۔۔۔اے بکسوکں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھل  رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عمق  گڑھے پر پاں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت مںھ رکھوا۔۔۔۔۔۔۔آہ، اگر یہ صرف نوجوان ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے۔" 
یہ کہہ کر خدا معلوم اسے کاے خایل آیا کہ وہ سر سے پر" تک کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز مں۔ کہنے لگی۔ "بڑے ہو کر انکا بھی یی  شغل ہوگا، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ مںہ نہںو آتا۔ غربت، غربت۔" 
یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خا لات مںک غرق ہوگئی۔ دفعتاً وہ اس اندھرتے خواب سے بدرار ہوئی اور اس کے دماغ مںی ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتںل اور امرا کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئںا۔ ان عمارتوں کی دلفریب راحتوں اور امرا کی تعشر پرستواں کا خایل آتے ہی اس کے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلجےے پر کسی غرح مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تارییب مںی آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کای۔ 
اسکی یہ حرکت خاہلات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حر ان تھی کہ لوگ امرا اور غریب کواں ہوتے ہں  جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پٹ  سے پد ا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کےیدو اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چزی جو اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھل  کر سمندر کی گود سے مچھلایں چھنا کر لاتا ہے تو کاآ وجہ ہے کہ مارکٹ  کا مالک بغر  محنت کئے ہر روز سنکڑاوں روپے پداا کر لتاا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجبی سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گرے اور نفع ہو مارکٹک کے مالک کو۔ رات بھر اسکا خاوند اپنا خون پسنہئ ایک کردے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند مں  چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز مں  کہنے لگی۔ 
"مجھ کم عقل کو بھلا کاک معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔" 
اس کے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "اے خدا مںس گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ایسا خامل کرنا کفر ہے۔" 
یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بٹھا گئی اور انکے معصوم چہروں کی طرف دیکھ کر بے اختاسر رونا شروع کردیا۔ 
باہر آسمان پر کالے بادل مہب  ڈائنوں کی صورت مںں اپنے ساےہ بال پریشان کئے چکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کیھت اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سائہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تارییم چھا جاتی۔ سمندر کی سں ب  لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لں  ب اور کشتورں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشناعں اس اچانک تبدیی  کو دیکھ کر آنکھںا جھپکنا شروع کر دیںکا۔ 
ماہی گرل کی بویی نے اپنے ملےد آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہںں۔ کوپنکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھا مگر صبح کا ایک سانس بھی بدوار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔ 
وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خایل مںی مستغرق رہی۔ جو اس بارش مںم سمندر کی تند موجوں کے مقابلے مںش لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اسکی عافتی کےیچل دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہںط اندھراے مںو ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف اٹھںھ، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھلا ئے لرز رہی تھی۔ اس جھونپڑی مںک روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دبا تلے دوہری ہو رہی تھی۔ 
"آہ، خدا معلوم بچائری بورہ کا کا۔ حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماہی گرو کی بو،ی زیرِ لب بڑبڑائی اور یہ خاال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔ 
وہ شکستہ جھونپڑی ایک بوبہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمتن روٹی کے قحط مں۔ موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصبتر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ مںو اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ 
ماہی گرم کی بوبی کے دل مںے ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش سے بچا ﺅکے لے  سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی لالٹنن روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تزل ہواں کی چخ  پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ کانپی اور خارل کای کہ شاید اس کی اچھی ہمسائی گہری نندک سو رہی ہے۔ 
اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھر خاموشی تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسدہہ لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جسے  اس بے جان چزئ نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا اور کھل گای۔ 
ماہی گرن کی بوری جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندھی لالٹنڑ سے روشن کر دیا، جس مںس لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوں کی صورت مںو ساجہ زمن  کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا مںب ایک مہبن خوف سانس لے رہا تھا۔ 
ماہی گرڑ کی بوری اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی مںا سمٹا ہوا تھا سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں مںا گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختاار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور دردناک آواز مںڑ کہنے لگی۔ 
"آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہں ، ماں کی محبت، گت ، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یینی قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ مردے خدا۔" 
اس کے سامنے پھوس کے بستر پر بو ہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اس کے پہلو مںا دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سنےی مںط ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھںس جھونپڑی کی خستہ چھت کو چرہ کر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھں ، جسے  انہںک کچھ پغاکم دینا ہے۔ 
ماہی گرک کی بوای اس وحشت خزو منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اس کی نمناک آنکھوں مںد ایک چمک پدیا ہوئی، اور اس نے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چزر اٹھا کر اپنی چادر مں  لپٹز لی اور اس دار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی مںم چلی آئی۔ 
چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اس نے اپنی جھولی کو ملےن بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بو ہ سے چھیمں ہوئی چز  کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمنل پر بٹھے گئی۔ 
مطلع سمندر کے افق پر سپدم ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی شعاعںے تارییک کا تعاقب کر رہی تھںا۔ ماہی گرں کی بویی بیھس  اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھڑر رہی تھی۔ ان غر۔ مربوط الفاظ کے ساتھ کن سری لہریں اپنی مغموم تانںو چھڑی رہی تھںا۔ 
"آہ مںس نے بہت برا کاو۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔۔۔یہ بھی عجبی ہے کہ مںی اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کا  واپس چھوڑ آں۔۔۔۔۔۔نہںا۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف کردے۔" 
وہ اسی قسم کے خاکلات مں۔ غلطاں و پچا ں بیھک  ہوئی تھی کہ ہوا کے زور سے دروازہ ہلا۔ یہ دیکھر اسکا کلجہب دھک سے رہ گا ، وہ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر وہںا متفکر بٹھ  گئی۔ 
"ابھی نہںے۔۔۔۔۔۔۔بچافرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں کےرہ  کتنی تکلفد اٹھانی پڑتی ہے۔ اکلےی آدمی کو سات پٹر پالنے پڑتے ہں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شور کاک ہے؟" 
یہ آواز چیتکن ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔ 
"اس کے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہںں ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ پھر اپنے اندرونی غم مںا ڈوب گئی۔ اب اس کے کانوں مںک ہوا اور لہروں کا شور مفقود ہوگاے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنے  مں۔ خاہلات کے تصادم کا کای کم شور تھا۔ 
آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی مںا گھسے ہوئے سنگریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گرں کی بوای کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خاالات مںی کھوئی ہوئی تھی۔ 
دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلی شعاعںش جھونپڑی مںد تررتی ہوئی داخل ہوئںے، ساتھ ہی ماہی گرں کاندھوں پر ایک بڑا سا جال ڈالے دہلزک پر نمودار ہوا۔ 
اس کے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکن۔ پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ آنکھںن شب بدواری کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھں ۔ جسم سردی اور غرا معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔ 
"نسمک کے ابا، تم ہو۔" ماہی گر۔ کی بو ی چونک اٹھی اور عاشقانہ بتاپبی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لا۔۔ 
"ہاں مںق ہوں پا ری" 
یہ کہتے ہوئے ماہی گر۔ کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بولی کی محبت نے اس کے دل سے رات کی کلفت کا خاکل محو کر دیا۔ 
"موسم کسا۔ تھا؟" بوکی نے محبت بھرے لہجے مں  دریافت کاٹ۔ 
"تند" 
"مچھلاکں ہاتھ آئںق؟" 
"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔" 
یہ سن کر اس کی بو ی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گرش نے اسے مغموم دیکھا اور مسکرا کر بولا۔ 
"تو مرکے پہلو مں  ہے۔۔۔۔۔۔مرےا دل خوش ہے۔" 
"ہوا تو بہت تز  ہوگی؟" 
"بہت تزم، معلوم ہو رہا تھا کہ دناو کہ تمام شطاہن مل کر اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا رہے ہںت۔ جال ٹوٹ گاش۔ رساتں کٹ گئںے اور کشتی کا منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔" پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔ "مگر تم شب بھر کا  کرتی رہی ہو پاھری؟" 
بولی کسی چز  کا خاال کرکے کانپی اور لرزاں آواز مںر جواب دیا۔ "مں ۔۔۔۔۔۔آہ کچھ بھی نہںش۔۔۔۔۔۔۔سیہی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھں ، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔" 
"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" 
"اور ہاں، ہماری ہمسایہ بوتہ مر گئی ہے۔" بوآی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ 
ماہی گرو نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اس لے  کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اس نے آہ بھری اور صرف اتنا کہا۔ "بچا ری سدھار گئی ہے۔" 
"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو لاش کے پہلو مںم لٹےع ہوئے ہںآ۔" 
یہ سن کر ماہی گرگ کا جسم زور سے کانپا اور اس کی صورت سنجدئہ و متفکر ہوگئی۔ ایک کونے مںا اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھگٹ رہی تھی، پھنکہ کر سر کھجلایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا۔ 
"پانچ بچے تھے، اب سات ہوگئے ہںت۔۔۔۔۔۔اس سے پشترق ہی اس تند موسم مںہ ہمںر دو وقت کا کھانا نصبہ نہں، ہوتا تھا۔ اب مگر خر ۔۔۔۔یہ مرنا قصور نہںا۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہںی۔" 
وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں مں۔ دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اس کی مٹھی کے برابر بھی نہںل ہںہ، ماں کووں چھنں لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہںم اور نہ ہی کسی چزآ کی خواہش ہی کر سکتے ہں ۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پشا کر سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔ 
"شاید اییں چزنوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔" اور پھر اپنی بوںی سے مخاطب ہو کر بولا۔ "پاپری جا انہںت یہاں لے آ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہونگے اگر وہ صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بد ار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت بے قرار ہوگی، جا انھںو ابھی لکرے آ۔" 
یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہو کر اس کے گھٹنوں پر چڑھنا سکھا جائنگے ۔ خدا ان اجنبوپں کو جھونپڑی مں  دیکھ کر بہت خوش ہوگا اور انھںہ زیادہ کھانے کو عطا کرے گا۔ 
"تمھںم فکر نہںگ کرنی چاہئےر پاکری۔۔۔۔۔۔۔مں  زیادہ محنت سے کام کروں گا۔" اور پھر اپنی بوای کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر بلند آواز مں  کہنے لگا۔ "مگر تم سوچ کا  رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیر  چال سے نہں  چلنا چاہئے تمھںر۔" 
ماہی گرن کی بوری نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔ 
"وہ تو یہ ہںر۔" 
دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔ (یکم فروری )1935 ) ماہی گرم

Comments

Popular posts from this blog

ماہی گیر تحریر--------- سعادت حسن منٹو   ( فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات ) سمندر رو رہا تھا۔ مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اس کی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے مح...

وہ بڈھا

Minto ''راجندر سنگھ بیدی'' میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہوگئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے لئے یہاں آکر ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اس لئے اس موڑ پر آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔ بس تو خیر نہیں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میرے دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے ادھر مکان تھا اور میرے الٹے ہاتھ اسکول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا سنوار رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن یکا یک نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں.... جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا ...
سلالہ سے ملالہ تک ! نذیرالحسن